بھائی چارگی کا فروغ نفرت پر مبنی

   

پروگرام کے نشر کے خلاف عدالتوں کا بروقت اقدام

رام پنیانی
ملک میں شعبہ قانون سے وابستہ مشہور و معروف شخصیت اور ممتاز سماجی جہدکار پرشانت بھوشن نے قابل ذکر انداز میں عدلیہ کو آئینہ دکھایا ہے لیکن یہی ساری کہانی نہیں ہے۔ حال ہی میں عدالتوں نے دو معاملات میں مداخلت کی ہے جس سے اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کہ عدلیہ ہمارے معاشرہ میں جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے بھی آگے آسکتی ہے۔ عدالتوں نے جس پہلے معاملہ یا مقدمہ میں مداخلت کی ہے وہ دراصل حال ہی میں دیا گیا فیصلہ ہے جس میں تبلیغی جماعت کے ارکان کو کورونا پھیلانے کے الزامات سے بری کیا گیا (تبلیغی جماعت کے ارکان کے خلاف کورونا جہاد اور کورونا بم جیسے اصطلاحات استعمال کی جارہی تھیں)۔ دوسری مداخلت عدالت کی جانب سے ایک دبائیں بازو کے ٹی وی چیانل کی سیریز ’’بنداس بول‘‘ کی نشریات کو رکوانا ہے۔ اس ٹی وی چیانل کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے اپنی ٹوئٹ میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایک ایسی سیریز نشر کررہے ہیں جس کا مقصد یونین پبلک سرویس کمیشن جہاد (یو پی ایس سی جہاد) اور مسلمانوں کی جانب سے سیول سرویس جہاد بے نقاب کرنا ہے۔ اس ٹی وی چیانل کے ایڈیٹر کے مطابق ایک سازش کے تحت مسلمان یو پی ایس سی امتحانات میں اعلیٰ درجات حاصل کرتے ہوئے ہماری بیوروکریسی میں دراندازی کررہے ہیں جس سے وہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ دار بننے کے اہل ہو جائیں گے۔ مسٹر چوہانکے نے اپنے سیریل کے لئے ایک 45 سکنڈ کے پرومو یا تشہیری مواد کے ذریعہ دعویٰ کیا کہ جامعہ جہادی اس جہاد کے ذریعہ اقتدار کے ایوانوں میں باوقار عہدہ حاصل کریں گے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جامعہ سے یو پی ایس سی کے لئے جو 30 طلبہ اہل قرار دیئے گئے ہیں ان میں 16 مسلمان اور 14 ہندو ہیں۔ مسٹر چوہانکے کے اس پرومو کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ عدالت سے رجوع ہوئے اور اسے رکانے کا مطالبہ کیا۔ عدالت نے حرکت میں آتے ہوئے اس پروگرام کو روکنے کی ہدایت دی اور یہ ہدایت عدالت اس بنیاد پر دی کہ چوہانکے کے اس ٹی وی سیریل سے معاشرہ میں نفرت پھیلنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ریٹائرڈ سیول سرونٹس کے دستوری اخلاقی گروپ نے ایک مشترکہ مکتوب جاری کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ بعض گوشوں کی جانب سے یہ کہنا کہ یونین پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات کے ذریعہ مسلم عہدہ داروں کو ان اعلیٰ خدمات میں گھسایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ ایک سازش کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ بالکل غلط او دروغ گوئی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

جن سابق آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ داروں نے یہ مکتوب لکھا ہے وہ کوئی عام شہری نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں نے حکومت کے مختلف محکمہ جات میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر ملک و قوم کی خدمت کی ہے، وہ کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔ ان سابق عہدہ داروں نے یو پی ایس سی جہاد یا سیول سرویس جہاد جیسی اصطلاح گھڑنے کی بھی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے فرقہ وارانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات نفرت پر مبنی تقاریر کی تعریف میں آتے ہیں اور اس سے ساری کمیونٹی کی توہین ہوتی ہے۔ اگر ہم ملک میں ائی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ داروں کی تعداد کا جائزہ لیتے ہیں تو ملک میں 8417 آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ دار ہیں جن میں 5862 سیول سرویس امتحانات کے ذریعہ منتخب کردہ عہد دار ہیں اور ان میں سے 160 مسلمان ہیں۔ 2555 عہدہ دار ایسے ہیں جنہیں سینیاریٹی اور کارکردگی کی بنیاد پر اسٹیٹ سیول سرویس کی جانب سے آئی اے ایس یا آئی پی ایس کے عہدہ پر ترقی دی گئی۔ ایسے عہدہ داروں میں مسلم عہدہ داروں کی تعداد 132 ہے۔

ان عہدہ داروں کی کارکردگی اور سینیاریٹی کا جائزہ یونین پبلک سرویس کمیشن ہی لیتا ہے۔ دوسرا ڈاٹا بہت ہی دلچسپ ہے۔ 2019 کے یوپی ایس سی امتحانات میں جملہ 829 امیدوار منتخب ہوئے ان میں مسلمانوں کی تعداد 32 بتائی جاتی ہے جو 4.22 فیصد ہوتا ہے۔ اس کے برعکس 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے۔ سال 2018 کے یوپی ایس سی امتحانات میں جملہ 759 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جس میں مسلم امیدواروں کی تعداد صرف 20 تھی۔ اس کا مطلب صرف 2.64 فیصد ہوتا ہے۔ 2017 کے یو پی ایس سی امتحانات میں 810 کامیاب امیدواروں میں 41 مسلمان تھے یعنی 5.06 فیصد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
چوہانکے کا دعویٰ ہیکہ ان امیدواروں کو عربک اسٹڈیز کا آپشن یا امکان دیا گیا جس کے باعث وہ مسابقت کرتے اور کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو سدرشن ٹی وی اور اس کا سی ای او چوہانکے اُس نظریاتی پٹری پر ہیں ایک ایسا نظریہ جو کہتا ہے کہ مسلمان کسی بھی اقتدار اور اتھاریٹی کے موقف میں نہیں ہونے چاہئے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی اکثریتی سیاست خواہاں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یو پی ایس سی کے ذریعہ منتخب امیدواروں میں ہمیشہ مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی سے بہت کم ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چوہانکے اور اس کی قبیل کے دوسرے لوگ اپنی مذہبی تنگ نظری کے باعث ایسے مسائل اور موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں جس کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بناکر انہیں بدنام کریں، ان کی شبیہہ کو متاثر کریں، اگر دیکھا جائے تو سدرشن ٹی وی کا یہ سیریل قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے خلاف مدون کردہ قانون کی کئی دفعات کے تحت مستوجب سزا ہے۔

دوسری طرف سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصد بہت بلکہ خطرناک حد تک کم ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر صرف 4 فیصد مسلمان فائز ہیں جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا اوسط 5.6 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی طور پر بہت پسماندہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے خلاف مسلسل تشدد کے نتیجہ میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھ گیا۔ اس ضمن میں ہم بھیونڈی، جلگاؤں، بھاگلپور، میرٹھ، ملیانہ، ممبئی، مظفر نگر اور پھر بعد میں ہوئے دہلی فسادات کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔
سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے موقف اور ان کی حالت زار کے بارے میں مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں نے تفصیلی جائزہ لیکر اپنی تجاویز پر مبنی رپورٹس حکومتوں کو پیش کی۔ گوپال سنگھ کمیشن، رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی نے ایک جیسی سفارت و تجاویز پیش کیں کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بہت کم ہے۔ اس کے برعکس آبادی میں ان کی تعداد کے برخلاف جیلوں میں مسلم قیدیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔کئی برسوں سے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی خطرناک حد تک کم ہوتی رہی اور یہ کمی مسلسل ہورہی ہے۔ کئی مسلم قائدین نے واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ انیں سیاسی اور سماجی طور پر حاشیہ پر لایا جارہا ہے۔ اگر ہم صرف تعلیمی شعبہ میں ہی مسلمانوں کی حالت زار کا پتہ چلائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ بیرونی ممالک میں ہندوستانی نژاد گروپس مسلمانوں میں تعلیمی فروغ کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ چوہانکے جیسے لوگ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی کو ملک کی سرفہرست یونیورسٹیز کے زمرہ میں شامل کیا گیا ہے۔ معاشی پسماندگی، احساس عدم تحفظ اور تعصب و جانبداری سے مسلمانوں خاص کر مسلم نوجوانوں کے حوصلوں پر برا اثر مرتب ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں سعید مرزا کے ڈرامہ ’’سلیم لنگڑے پہ مت رو‘‘ نے اپنے مستقبل کو لیکر فکرمند مسلم نوجوانوں کے حالات پر اچھی روشنی ڈالی ہے۔ بہرحال چوہانکے کے سیرئل نے یو پی ایس اسی کی شبیہہ کو بھی متاثر کیا ہے۔