بھینسہ میں فرقہ وارانہ فساد

   

بھینسہ میں فرقہ وارانہ فسادات پولیس اور نظم و نسق کی کمزوریوں کا ثبوت ہے ۔ فرقہ پرستوں پر قابو پانے سے زیادہ جب سرکاری اتھاریٹی صرف ایک فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بناکر گرفتاریاں انجام دیتی ہے تو اس معاشرہ میں عدم تحفظ کے احساس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں بھینسہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے سراسر ان فرقہ پرستوں کا ہاتھ ہے جو خوف کا ماحول پیدا کر کے اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ۔ بھینسہ کے ایم پی کی زہر افشانی اور نفرت پر مبنی بیانات نے ماحول کو کشیدہ بنایا تھا ۔ نتیجہ میں ایک معمولی جھگڑے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا ۔ ملک کو نازک دور میں ڈھکیلنے والی مرکزی قیادت کے پیروکار آج ہر کونے کونے میں خودکو سورما سمجھنے لگے ہیں۔ بھینسہ کے فرقہ پرست ذہن کے حامل قائدین اور کارکنوں نے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا ہے ۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ضلع کلکٹر نرمل نے دو فرقوں کے درمیان سنگباری کے واقعات کے حوالے سے رات دیر گئے مکانات اور گاڑیوں کو آگ لگانے کا اعتراف کیا ہے ۔ مسلمانوں کے 13 سے زائد مکانات اور 24 گاڑیوں کو مکمل نذر آتش کرتے ہوئے فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقہ بھینسہ کا امن درہم برہم کردیا گیا ۔ پولیس فورس کی جانبداری سے بھی فسادات کو بڑھاوا ملتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھینسہ کی پولیس نے فسادیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ اشرار کو کھلی چھوٹ دے کر مساجد اور مسلمانوں کے مکانات پر حملے کے وقت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ اگر پولیس ایک فرقہ کے لوگوں کو کھلی چھوٹ دیتی ہے اور اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے آنسو گیاس شل برسائے اور لاٹھی چارج کرے تو اس جانبدارانہ کارروائی کی شدید مذمت کی جانی چاہئے اور حکومت کو اس یکطرفہ کارروائی کا نوٹ لینا چاہیے ۔ اگر حکومت نے خاطیوں کے خلاف فوری سخت کارروائی نہیں کی تو ان فسادیوں کے حوصلہ مزید بلند ہوں گے ۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی اپنی حفاظت کے لیے چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ فرقہ پرستوں کو حاصل سرپرستی کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں ۔ سیاسی فرقہ پرستوں کے سیاسی گیم نے یہ حالات پیدا کردئیے ہیں تو اس کو فوری قابو میں لایا جانا چاہئے ۔ مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ان کے خلاف اٹھنے والی طاقتوں کو کسی بھی بہانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ تو چاہتے ہی ہیں کہ مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے اور یہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں ۔ فرقہ پرستوں کی تو فطرت میں شامل ہے کہ ان کے پاؤں پکڑو تو یہ ٹھوکر مارتے ہیں ۔ اگر ان کا گریبان پکڑو تو یہ پاؤں پڑ جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس قدر کمزور بنادیا گیا ہے کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے مظالم کا جواب بھی دینے سے قاصر ہیں ۔ بھینسہ کے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے مکانات اور موٹر گاڑیوں کو اس وقت حملہ کیا جب مقامی مسلمانوں کی بڑی تعداد نرمل میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے گئے تھے ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بتایا جاتا ہے کہ ہندو واہنی سے وابستہ کارکنوں نے بھینسہ میں مسلمانوں کے مکانات کو منظم و منصوبہ بند طریقہ سے نذر آتش کیا ۔ پولیس کو اس واقعہ کی رپورٹ ہے اس نے حالات پر قابو پانے کی بروقت کوشش نہیں کی ۔ لہذا حکومت اور وزارت داخلہ کو خاطی پولیس ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیس کو کسی بھی صورت میں یکطرفہ کارروائی نہیں کرنی چاہئے ۔ مگر افسوسناک حقیقت یہی ہے کہ پولیس کارروائی جب بھی جانبدارانہ ہوتی ہے وہاں فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ۔ تلنگانہ کے پرامن ماحول کو فرقہ پرستانہ رنگ دے کر مسلم دشمن طاقتیں سرگرم رہتی ہیں تو کے سی آر حکومت کے لیے لمحہ فکر ہے ۔ اگر کے سی آر نے اس طرح کے واقعات کا فوری نوٹ نہیں لیا تو فرقہ پرستوں کی جانب سے لگائی جانے والی یہ آگ ریاست کے دیگر حصوں تک پھیل جائے گی اور پرامن ریاست کو بدنام کرتے ہوئے کے سی آر حکومت کو رسوا کیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ان واقعات کا نوٹ لے کر خاطیوں کے خلاف فوری کارروائی کریں ۔۔