اس کا سرمسخ کردیاگیاتھا‘ سینے او رپیٹ میں چاقو کے گہرے زخم تھے
پٹنہ۔اپنے آنسو چھپانے کے لئے سہیل احمد نے سرجھکا لیا۔ انہوں نے کہاکہ ”اس کے بعد بھی ترنگا کے احترام کو ملحوظ رکھا۔جس وقت اس کو قتل کیاگیا‘ وہ ترنگے کے ساتھ دوڑ رہا تھا“۔
ان کے بیٹے عامر ہنجالا18سال کی ہے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پٹنہ کے مضافات پھولوار شریف میں 21ڈسمبر کے روز منعقدہ احتجاجی پروگرام میں اس وقت شریک تھے جب ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں اور حامیوں کے مابین اینٹیں پھینکنے کا تبادلہ شروع ہوا تھا۔
عامر جین اور سرخ رنگ کا سوئٹ شرٹ پہنے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ترنگا تھا اور ایسا لگ رہاتھا کہ وہ اپنی زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہے تھے۔
ان کی مدبھیڑ سنگت محلہ کی گلیوں میں گذرتے وقت ہوئی جو آرایس ایس کی ملحقہ تنظیم سرسوتی شیشو ویدیا مندر کی برنچ کا مرکز ہے اور یہ علاقے ہندو شدت پسندوں کے نام سے مشہور بھی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں پر کسی نے انہیں آخری مرتبہ دیکھا تھا۔ ان کی نعش دس دنوں بعد نئے سال کی رات پھلوارشریف کے بلاک ہیڈکوارٹر کے کمپاونڈ میں ایک آلودہ پانی کے نالے سے نکالی گئی۔
اس کا سرمسخ کردیاگیاتھا‘ سینے او رپیٹ میں چاقو کے گہرے زخم تھے۔سہیل نے کہاکہ”ترنگا ہاتھوں میں پکڑے لڑکے کیسے لوگ مارسکتے ہیں؟۔
احتجاج کے روز ویڈیوز او رپوسٹر س آپ دیکھیں۔ وہ فخر کے ساتھ قومی پرچم لہرارہاتھا۔ ہر کوئی جانتا ہے اس کو آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے وہ لوگ جو علاقے میں رہتے ہیں قاتل کیاہے“۔
پٹنہ نژاد پرنت پرچار پرمکھ برائے آر ایس ایس راجیش کمار پانڈے نے کہاکہ ”ان کا کام الزامات عائد کرنا ہے۔ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو اس کی جانچ ہونا چاہئے۔ پولیس کو اسی وقت اپنا کام انجام دینا چاہئے“۔
پانڈے نے مزیدکہاکہ ”اگر وہ ہم پر الزامات کرتے ہیں تو انہیں قاتلوں کا نام بھی بتانا چاہئے۔ مذکورہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کسی بھی قسم کی پرتشدد سرگرمی میں ملوث نہیں ہے“۔
ساتھ بھائیوں اور بہنوں عامر چوتھے تھے اور دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بیگ بنانے والے یونٹ میں کام کررہے تھے۔
ڈسمبر21کے روز وہ کام کے لئے روانہ ہوئے مگر دیکھا کہ اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل‘ کانگریس اور اتحادی پارٹیوں کی جانب سے ریاست گیر بند کی وجہہ سے یونٹ بند ہے۔
لہذا عامر نے فیصلہ کیاکہ وہ احتجاج میں شامل ہوجائیں گے۔
نتیش کمار کی زیر قیادت جنتا دل بی جے پی اتحادی حکومت ریاست بہار میں برسراقتدار ہے۔ عامر کے بڑے بھائی ساحل نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ ”دوپہر کے وقت میں وہ کہاں دریافت کرنے کے لئے اس کو فون کال کیاتھا۔
اس نے بتایا کہ وہ احتجاج میں ہے مگر بہت جلد واپس اجائے گا۔ میں نے دوبارہ 2بجے اس کوفون کیا۔ اس کا موبائیل فون بند تھا۔ میں سمجھا کہ وہ واپس بیگ کے یونٹ چلا گیاہے“۔
چاروں طرف سے فساد‘ پتھر بازی اور فائرینگ کی خبریں سننے کے بعد 8بجے رات کے وقت گھر والے مایوس ہوگئے تھے۔ لہذا وہ پھولوار پولیس اسٹیشن گئے۔
ساحل نے کہاکہ ”پولیس نے ہم سے استفسار کیاکہ اے ائی ائی ایم ایس پٹنہ او رپٹنہ میڈیکل کالج اور اسپتال میں تلاش کریں‘ جہاں پر کئی زخمیوں کا علاج کیاجارہا ہے۔
ہم نے دونوں مقامات کے ساتھ دیگر اسپتالوں اورکلینک پر تلاشی کی۔ مگر ہمارا بھائی کہیں بھی نہیں ملا“۔
سینئر عہدیداروں کی عدم موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے جب ہم پولیس اسٹیشن دیر رات گئے واپس لوٹے تو وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے ایف ائی آر رجسٹرار کرنے سے انکار رکردیا۔
انہوں نے وعدہ کیاعامر کی تلاش میں ٹیموں کو روانہ کیاجائے گا۔ نو دنوں تک گھر والوں نے ہاتھوں میں تصویر پکڑے اس علاقے میں گھوم رہے تھے جہاں پر تشدد رونما ہوا تھا۔ ساحل نے کہاکہ ”لوگوں نے کہاکہ سنگت محلے میں اس کو ماردیاگیا ہوگا۔
ہم نے پولیس کو بتایا مگر انہوں نے اسبات کو نظر انداز کردیا۔ قیامت کے ایام تھے وہ‘ ہم لوگوں نے نہ تو کھانا کھایا اور نہ ہی سکون سے سوکے‘ ہم صرف عامر کے متعلق سونچ رہے تھے“۔
گھر والوں کے درد میں اضافہ ایک پولیس افیسرنے صحافیوں کو یہ بتاتے ہوئے کردیا کہ عامر دماغی طور پر غیرمستحکم تھا اور گھر سے فرار ہوگیاتھا۔
ساحل نے کہاکہ اس کی گھڑی کپڑوں سے ہم پہچان سکے وہ عامر کی نعش ہے۔پھلوار شریف ایس ایچ او محمد شفیق الرحمن نے کہاکہ دس سے بارہ لوگ عامر کے قتل میں ملوث ہیں اور اب تک چھ لوگوں کو حراست میں لیاجاچکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ”دیپک کمار او رچنٹو کو 30ڈسمبر کے روز گرفتار کیاگیا ہے۔ اس نے عامر کو سنگت محلہ کی شمالی گلی سے گذرتے وقت قتل کرنے کا اعتراف کیاہے“۔
پوسٹ مارٹم میں پتہ چلا ہے کہ عامر کے سینے اور پیٹ میں درنوں وار کئے گئے ہیں۔