بہار میں ذات پات کا سروے

   

چھٹ چکی شب کی سیاہی مسکرائی صبحِ نو
اک نئی دنیا بسانے کا مقام آہی گیا
بہار ملک کی وہ اولین ریاست بن گئی ہے جہاں ذات پات کی بنیاد پر سروے کیا گیا ہے۔ اس طرح کے سروے کا ملک کی مختلف جماعتوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا اور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ پسماندہ اور بہت زیادہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ملک میں بہت زیادہ ہے اور سرکاری طور پر ان کی تعداد اور تناسب کو کم دکھاتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود کیلئے بجٹ ناکافی جاری کیا جاتا ہے اور اس طرح کے اقدامات ان کیلئے نہیں کئے جاتے جتنے کئے جانے چاہئیں۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے اکھیلیش یادو ہوں یا پھر دوسری ریاستوں کے مقامی قائدین ہوں سبھی نے ذات پات کے سروے کا مطالبہ کیا تھا ۔ کانگریس نے بھی جو انتخابی موڈ میں ہے یہ اعلان کیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں اگر وہ برسر اقتدار آتی ہے تو ریاست میں ذات پات کی بنیاد پر سروے کروایا جائیگا ۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ بی جے پی عمدا ذات پات کا سروے کرنے سے روکتی ہے تاکہ اسے اپنے اقتدار کو بچانے کا موقع ملتا رہے اور وہ پسماندہ طبقات کی حقیقی تعداد کو چھپاتی رہے اور ان کیلئے محض دکھاوے کے اقدامات کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جائے ۔ بہار میں نتیش کمار حکومت نے گذشتہ سال ہی ذات پات کا سروے کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ عمل شروع کردیا گیا تھا ۔ آج گاندھی جینتی کے موقع پر اس سروے کی رپورٹ کی اجرائی عمل میں لائی گئی ہے ۔ اس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ریاست کی 13 کروڑ سے زائد آبادی میں 27 فیصد پسماندہ طبقات کے لوگ ہیں اور 36 فیصد لوگ بہت زیادہ پسماندہ طبقات کے ہیں۔ اس کے علاوہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے عوام کے آبادی میں تناسب کو بھی اس رپورٹ میں پیش کردیا گیا ہے ۔ اب اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس پر ایک سیاسی طوفان پیدا ہوسکتا ہے ۔ کئی اور ریاستوں میں مختلف جماعتوں کی جانب سے ذات پات کی بنیاد پر سروے کے مطالبات ہوسکتے ہیں اور ان میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کیلئے اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا آسان نہیں رہے گا تاہم اس کی حکمت عملی کیا رہے گی اسے دیکھنا ہوگا ۔
اس طرح کی قیاس آرائیوں کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اب پسماندہ طبقات کیلئے جو 27 فیصد تحفظات ہیں ان میں اضافہ کے مطالبات بھی پیدا ہونے لگیں گے ۔ شائد یہی وجہ رہی تھی کہ بی جے پی اس طرح کے سروے کی مخالفت کرتی رہی تھی ۔ بہار کی سیاسی جماعتوں نے اس رپورٹ کی اجرائی کا خیر مقدم کیا ہے ۔ خود چیف منسٹر نتیش کمار نے اسے ایک بڑا قدم قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ذات پات کے سروے کا کام ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی تائید سے شروع کیا گیا تھا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو نے بھی اسے ایک بڑا سنگ میل قرار دیا ہے اور کہا کہ اس سے سماج کے مختلف طبقات سے انصاف کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ سابق چیف منسٹر و آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے بھی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے تاہم مرکزی وزیر و بہار سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ گری راج سنگھ نے اس رپورٹ کو ایک طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ یہ محض دکھاوا ہے ۔ بی جے پی کے بہار صدر کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے کبھی اس طرح کے سروے کی مخالفت نہیں تھی ت اہم اس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس پر باضابطہ رد عمل کا اظہار کیا جائیگا ۔ تاہم ایک بات ضرور طئے کہی جاسکتی ہے کہ اس مسئلہ پر اب ملک کی مختلف ریاستوں میں سیاست گرم ہوسکتی ہے ۔ جن ریاستوں میں ابھی اس مسئلہ کو شدت کے ساتھ اٹھایا نہیں گیا تھا وہاں بھی اس مسئلہ کو اٹھایا جائیگا اور مزید کئی جماعتیں ایسی ہیں جو اس طرح کے سروے کی تائید میں آگے آسکتی ہیں۔
بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو اس کیلئے اس مسئلہ سے نمٹنا سیاسی اور سماجی طور پر آسان نہیں رہے گا ۔ بی جے پی نے کبھی بھی باضابطہ طور پر اس طرح کے سروے کی تائید نہیں کی ہے ۔ بہار میں اس نے مخلوط حکومت کی مجبوری میں خاموشی اختیار کی تھی لیکن اب جب اس سروے کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے اس پر بی جے پی کا رد عمل انتہائی محتاط ہے ۔ بہار کی سیاست کے اعتبار سے وہاں وہ اس کی کھل کر مخالفت نہیں کرسکتی اور قومی سطح پر پارٹی اس کی حمایت بھی نہیںکرسکتی ۔ ایسے میں بی جے پی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیا کچھ موقف اختیار کریگی اور اس کا حقیقی موقف کیا ہوگا یہ دیکھنا زیادہ دلچسپ ہوگا ۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اب ذات پات کے مسئلہ پر ملک کی سیاست میںشدت پیدا ہوسکتی ہے ۔