بہار پولیس بل کی منظوری

   

Ferty9 Clinic

اب چیف منسٹر بہار نتیش کمار بھی بی جے پی کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں یا پھر وہ بی جے پی کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ یہ بات اس لئے کہی جاسکتی ہے کیونکہ بہار میں گذشتہ دو دن قبل ایک قانون منظور کیا گیا ہے جو انتہائی متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ ایک ایسا قانون بنایا گیا ہے جس کے ذریعہ پولیس کو وسیع تر اختیارات سونپ دئے گئے ہیں اور کسی کو بھی کسی بھی وقت گرفتار کرنے ‘ کہیں بھی کبھی بھی چھاپے مارنے اور حراست میں لینے کی اجازت اس قانون کے ذریعہ سے دیدی گئی ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے اس قانون کی ریاستی اسمبلی میں شدت سے مخالفت کی گئی ۔ تاہم نتیش کمار حکومت نے اس مخالفت کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی اور وہ بزور طاقت اس بل کو منظور کروانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسمبلی میں جو صورتحال پیش آئی اس نے جمہوری عمل کو داغدار کردیا ہے ۔ جس طرح سے اسمبلی کے احاطہ میں پولیس کو طلب کرتے ہوئے عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ ارکان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور انہیں اسمبلی کے باہر پھینک دیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار اب جمہوری ریاست نہیں بلکہ ایک پولیس اسٹیٹ بننے کی سمت پیشرفت کر رہا ہے ۔ بہار میں جو حالات ہیں اور عوام جن مسائل سے دوچار ہیں ان کو دیکھتے ہوئے نتیش کمار حکومت کو تو چاہئے تھا کہ وہ ریاست کی فلاح و بہبود پر توجہ دیتی ۔ عوام کو درپیش مسائل کی یکسوئی کیلئے اقدامات کئے جاتے ۔ ریاست میں تعلیم کو فروغ دینے کیلئے قانون سازی کی جاتی ۔ بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کا اسمبلی میں اعلان کیا جاتا ۔ خواتین کی فلاح و بہبود اور ان پر مظالم کی روک تھام کیلئے کوششیں کی جاتیں لیکن ایسے مسائل پر نتیش کمار حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ ریاست میں جرائم پر قابو پانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ہیں۔ مہنگائی کی مار سے عوام کو بچنے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیںجن سے عوام کو مشکلات میں اور خاص طور پر حکومت سے سوال کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ یہ وہی روش ہے جو بی جے پی نے اختیار کی ہوئی ہے اور اسی کو اب نتیش کمار نے اختیار کیا ہے ۔
نتیش کمار بہار میں اس حد تک کمزور ہوچکے ہیں کہ انہیں کسی بھی فیصلے یا اقدام کیلئے بی جے پی کی بیساکھیوں کے سہارے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کی مدد کے بغیر وہ کوئی اہم فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی بی جے پی کی جانب سے ملنے والی ہدایات کو نظر انداز کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ وہ اسمبلی انتخابات میں تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئے تھے ۔ اپوزیشن آر جے ڈی اتحاد نے جو مقابلہ کیا تھا اس سے نتیش کمار کی بنیادیں ہل گئی تھیں تاہم آخری لمحات میں بی جے پی کی مدد سے کسی طرح نتیش کمار اپنی وزارت اعلی کی کرسی بچانے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن وہ ایسی کرسی پر براجمان ہیں جس پر بیٹھ کر وہ عوام کی فلاح یا بھلائی کیلئے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی کرسی کمزور بنیادوں پر ہے اور وہ اپنی کرسی کو بچانے پر ہی ساری توجہ دینے پر مجبور ہیں۔ بی جے پی اپنے اقتدار والی ریاستوں میں انتہائی سخت گیر قوانین بناتے ہوئے عوام کی آوازوں کو کچلنے میں مصروف ہے ۔ حکومت سے سوال کرنے والوں کو ملک کے غدار قرار دیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم یا حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو قوم مخالف قرار دیتے ہوئے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ انہیں جیل بھیجا رہا ہے ۔ ان کی ضمانتیں نہیں ہو رہی ہیں۔ ان اقدامات سے سارے ملک میں عملا ایک بے چینی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ بی جے پی اب بہار میں بھی یہی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے وہ نتیش کمار کو اپنے اشاروں پر چلار ہی ہے اور نتیش کمار بی جے پی کے اشاروں پر ناچنے کیلئے مجبور ہیں ۔
جس طرح کشمیر میں بی جے پی نے پی ڈی پی سے اتحاد کرتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کی تھی وہی حکمت عملی بہار میں اختیار کی جا رہی ہے ۔ اپنی حکومت کیلئے ماحول سازگار کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی بساط پر مہرے بچھائے جا رہے ہیں۔ نتیش کمار ساری صورتحال کو سمجھنے کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔انہیں بہار یا بہار کے عوام یا عوام کی مشکلات سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر لگ گئی ہے ۔ وہ کسی بھی قیمت پر چیف منسٹر کی کرسی پر براجمان رہنا چاہتے ہیں چاہے کسی بھی قیمت پر کیوں نہ ہو ۔ بہار میں جو قانون بنایا گیا ہے وہ ملک کے جمہوری ڈھانچہ کیلئے ضرب کاری ہے ۔ اس میں عوامی مفاد میں اٹھنے والی مخالف حکومت آوازوں کو کچلنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے اور یہ ملک کے جمہوری ڈھانچہ کے مغائر ہے ۔