بہار کی سیاست اور افطار پارٹیاں

   

سیاسی اعتبار سے ملک کی ایک اہم ریاست بہار میں جاریہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کا سامنا کرنے کی تیاریاںشروع کردی گئی ہیں۔ کچھ جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کا جائزہ لے رہی ہیں تو کچھ عوام سے کئے جانے والے وعدوں کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ حکومت اپنے کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے جبکہ نئی پارٹیاں بھی اپنی قسمت آزمانے کیلئے سرگرم ہوچکی ہیں۔ ایسے میںجبکہ ماہ رمضان المبارک چل رہا ہے اور اب ماہ مبارک کے آخری ایام کا آغاز ہوچکا ہے تو سیاسی جماعتیں افطار پارٹیوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ ویسے تو سیاسی جماعتوں اورریاستی حکومتوں کی جانب سے افطار کی دعوتوں کا ہمیشہ سے اہتمام کیا جاتا رہا ہے تاہم اس بار ان جماعتوں کی دعوتوں میں تیاریاں اور جوش و خروش زیادہ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بہار کی سیاسی جماعتیں مسلمانوںکو رجھانے اور ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ افطار کی دعوتیں ویسے تو بھائی چارہ کو فروغ دینے کیلئے اورمسلمانوںسے اظہار یگانگت کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہیں اور ان کا مقصد ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنا بھی ہوتا ہے لیکن سیاسی جماعتیں تو صرف سیاسی اور انتخابی فائدہ ہی سوچتی ہیں اور اسی کیلئے سب کچھ کرتی ہیں۔ کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیںچاہتیں تو اس بار بہار میں انہیں یہ موقع ہاتھ آیا ہے کہ افطار کی دعوتوںکا اہتمام کیا جائے اور مسلمانوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بہار میں بی جے پی اقتدار میںشریک ہے ۔ جنتادل یو کی قیادت میں بنی نتیش کمار حکومت میں بی جے پی اور دوسری علاقائی جماعتیں وغیرہ بھی شامل ہیں ۔مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے تو اس میں جے ڈی یو اور ایل جے پی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بی جے پی ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید فرقہ وارانہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن جہاں انتخابات ہیں اور حلیف جماعتیں اس کے ساتھ ہیں وہاںدوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں۔
بہار میں چیف منسٹر نتیش کمارکی جانب سے بھی دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ مودی حکومت کے وقف ترمیمی بل کی تائید و حمایت کر رہی ہے جس کے ذریعہ مودی حکومت مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو بھی نشانہ بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ بہار کی ایک بااثر سمجھی جانے والی تنظیم امارت شریعہ بہار نے نتیش کمار کی دعوت افطار کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ بظاہر یہ ایک بہترین اقدام تھا تاہم دوسری تنظیموں اوراداروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی جونہیں کیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کئی مسلم تنظیمیں اورنمائندے چیف منسٹر کی دعوت افطار میں شریک ہوئے ۔ سیاسی جماعتیں تو ایک دوسرے کو رجھانے کی کوششیں بھی کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کو قریب لانے سرگرم ہیں تومسلم تنظیموں کو بھی آپس کے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بی جے پی ملک کی دوسری ریاستوں میںافطار دعوتوں کی مخالفت کر رہی ہے لیکن نتیش کمار کی دعوت پر خاموشی اختیار کرلی گئی ۔ اسی طرح مودی حکومت میں شریک ایل جے پی کے لیڈر چراغ پاسوان نے بھی اپنی پارٹی کی جانب سے افطار کی دعوت کی اور بی جے پی نے اس پر بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ بی جے پی کے ہر مسلم مخالف فیصلے میں اس کی تائید کرنے والی جماعتیں اب جو دعوت افطار کا اہتمام کر رہی ہیں وہ محض سیاسی فائدہ کیلئے ہے اور مسلمانوں کو رجھانے کیلئے ہے ۔ بی جے پی بھی اسی وجہ سے ان پر کھلے عام تنقید سے گریز کر رہی ہے ۔
راشٹریہ جنتادل ہو یا پھر دوسری جماعتیں ہو وہ بھی مسلمانوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ہمیشہ سے انہیں مسلمانوں کی تائید ملتی بھی رہی ہے ۔ اب جبکہ انتخابات کے موسم میں کئی بارش کے مینڈک سامنے آئیں گے اور مسلمانوںکی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ افطار کی دعوتوں اور ان کی سجاوٹوں سے متاثر ہونے کی بجائے بہار کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کون ان کی تائید و حمایت کرتا ہے ۔ ان کے مسائل کو سمجھتا ہے ۔ ان کے حقوق کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے اور کون ہے جو ان کے ووٹ تو حاصل کرلیتے ہیںلیکن مرکز میں مودی حکومت کے فیصلوں کو من و عمل کرلیتے ہیں۔