بیسویں صدی کی یورپی آزادیٔ نسواں کی لہر اکیسویں صدی میں سعودی پہنچی

,

   

l سعودی میں عام مقامات پر خواتین کے سگریٹ پینے کے رجحان اور ڈیٹنگ کلچر میں اضافہ
l محمد بن سلمان سعودی کو اعتدال پسند اور کاروبار کیلئے سازگار بنانے کے خواہاں : رپورٹ

دوبئی 17 فروری (سیاست ڈاٹ کام) بیسویں صدی کی یورپ کی آزادی نسواں کی لہر اکیسویں صدی میں خلیجی ملکوں خاص طور پر سعودی عرب میں اب پورے طور پر چل پڑی ہے ، جس میں بلاشبہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی عمل کا خاصہ دخل ہے جو اپنے ملک کی پہچان کو اعتدال پسند اورکاروبار کے لئے سازگار بنانے کے خواہش مند ہیں۔سعودی خواتین کو کاریں چلانے کی اجازت پہلے ہی مل چکی ہے ۔ اب وہ کھیل تماشوں کی تقریبات میں بھی حصہ لے سکتی ہیں ۔ کسی بالغ سعودی لڑکی کواب کسی مرد سرپرست کی غیر ضروری محتاجی نہیں رہی۔ مثلاً پاسپورٹ بنوانے کے لئے وہ اپنے طور پر آزاد ہے ۔آزادی نسواں کی ہوا کا یہ جھونکا اپنے ساتھ کئی تبدیلیاں لے کر آیا ہے ۔انہی میں سے ایک تبدیلی یہ بھی ہے کہ اب سعودی خواتین بھی سگریٹ پی سکتی ہیں ۔پہلے یہ عمل قطعی ممنوع تو نہیں لیکن انتہائی قدامت پسند معاشرے میں قابل گرفت حد تک معیوب تھا ۔بیسویں صدی میں یورپ میں بھی سگریٹ نوشی کو آزادی نسواں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔سعودی عرب میں عام جگہوں پر پر خواتین کے سگریٹ پینے کے رجحان میں حالیہ مہینوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے ۔ویسے پڑھی لکھی لڑکیاں سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے پیش نظر چو کنا بھی ہیں ۔وہ سگریٹ نوشی کو معیوب کم اور نقصاندہ زیادہ سمجھتی ہیں۔ اس طرح آزادی نسواں نے ان کے اندر بیداری بھی پیدا کی ہے ورنہ پہلے تو ہائی اسکول تک پہنچنے والی 65 فیصد لڑکیاں مبینہ طور پر تمباکو نوشی کرنے لگتی تھیں ۔کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی میڈیکل فیکلٹی نے اپنی ایک ریسرچ رپورٹ میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے ۔اس سال ویلینٹائن ڈے بھی سعودی ماحول کا حصہ رہا ورنہ کچھ عرصہ قبل تک مذہبی اخلاقیات نافذ کرنے والی سعودی پولیس ویلنٹائن ڈے کے موقع پر لال رنگ کے پھول بیچنے والوں کو گرفتار کر لیتی تھی۔بدلے ہوئے حالات میں اب ‘ڈیٹنگ کلچر’ سعودی نوجوانوں کی زندگی کا بھی حصہ بن چکا ہے ۔ مذہبی اخلاقیات نافذ کرنے والی پولس کے بااختیار ہونے کے زمانے میں جہاں ایسی کسی خوشی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا وہیں اب ایسی چیزوں کو مذہب سے جوڑ کر دیکھنے کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ۔سعودی دارالحکومت کے بازار سے سعودی خواتین اب مغربی لباس میں ملبوس گزر سکتی ہیں۔تصویر کا دوسرا رخ آن لائن ڈوئچے نے ایک بیس سالہ سعودی لڑکی کے ان الفاظ میں دکھایا ہے کہ اس کے بھائی نے جو فوج میں ہے ، اس کے موبائل پر ایک جاسوس سافٹ ویئر انسٹال کر رکھا ہے تاکہ اسے اپنی بہن کی نقل و حرکت کا پتہ چلتا رہے ۔ ایک اور لڑکی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سعودی نوجوان قدیم روایات اور جدید تقاضوں کے مابین پھنس کر رہ گئے ہیں۔