بیعت اور خلافت کی شرعی حیثیت

   

کتاب و حکمت کی تعلیم اور تزکیہ نفوس ، رسالت و نبوت کے بنیادی مقاصد ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’بیشک اﷲ تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں اُنہی میں سے ایک رسول کو مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں ، ان کا تزکیہ کرتے ہیں ( پاک و صاف کرتے ہیں ) اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔ (آل عمران؍۱۶۴)
سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے : اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے ایک رسول کو مبعوث فرمایا جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتےہ ہیں اور ان کا تزکیہ ( پاک و صاف ) کرتے ہیں بیشک تو ہی غالب ، حکمت والا ہے ۔ (سورۃ البقرہ۱۲۹)
ابن ماجہ میں ہے : نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ اور ایک روایت میں ہے : ’’میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کیلئے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں(الادب المفرد، للبخاری )
پس کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ، علم کی روشنی کو عام کرنا ، لوگوں کو عمدہ اخلاق سے آراستہ کرنا ، انھیں مذموم صفات و برائیوں سے پاک کرنا اور اچھے اخلاق و صفات کا حامل بنانا ، ان کے نفوس کو مہذب بنانا ، عقل و فکر کو پاکیزہ بنانا ، قلب و نگاہ کو پاک کرنا ، ان کے قلب و روح کو جلا بخشنا اور تقویٰ و طہارت کے نور سے آراستہ کرکے اﷲ تعالیٰ کے قرب خاص کا حامل بنانا رسالت و نبوت کا اہم مقصد ہے اور مذکورہ اغراض و مقاصد کے لئے بیعت لینا قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’( اے حبیب ) یقینا جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں پر اﷲ کا دست قدرت ہے پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کاوبال اس کی جان پر ہوگا اور جس نے پورا کیا جس کو پورا کرنے پر اُس نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائیگا‘‘۔ ( سورۃ الفتح ۴۸؍۱۰) اسی سورۃ میں ہے : ’’بیشک اﷲ تعالیٰ مومنین سے راضی ہوگیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپؐ سے بیعت کررہے تھے ۔ سوجو ان کے دلوں میں تھا وہ اﷲ کے علم میں رہا تو اﷲ نے ان کے دلوں پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انھیں ایک بہت ہی قریب فتح ( خیبر) کا انعام عطا کیا ‘‘۔اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خواتین سے ترکِ کبائر ( کبیرہ گناہ ترک کرنے ) پر بیعت لینے کا حکم فرمایا ۔ ارشاد ہے :’’ اے نبی ! جب آپ کے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھیرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بھتان گھڑکر نہیں لائیں گی اور کسی شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی ۔ تو آپ ان سے بیعت لے لیا کریں ، اور ان کے لئے اﷲ تعالیٰ سے بخشش طلب فرمائیں بے شک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ‘‘۔ ( سورۃ الممتحنۃ ۶۰؍۱۲)
نبی اکرم ﷺ نے عقبہ اولیٰ کے موقع پر انصار صحابہ سے بیعت لی سیرت حلبیہ ۲؍۸ میں منقول ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’میں تم سے بیعت لیتا ہوں اس بات پر کہ تم میری حفاظت کروگے جس طرح تم اپنے اہل و عیال بیوی بچوں کی کرتے ہو ‘‘۔ ان لوگوں نے اس بات پر آپ سے بیعت لی ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے عقبہ ثانیہ کے موقع پر بھی ستر انصاری صحابہ سے بیعت لی تھی ۔
حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم بعض صحابہ کرام سے خصوصی بیعت بھی لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ سے منقول ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں ساتھ یا آٹھ یا نو افراد تھے ۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا : کیا تم بیعت نہیں کروگے ؟ ہم نے اپنے ہاتھوں کو پھیلادیا۔ کسی ایک نے کہا یارسول اﷲ ﷺ ! ہم تو بیعت کرچکے ہیں، ہم کس بات پر بیعت کریں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، پانچ نمازیں پڑھوگے ، سنوگے اور اطاعت کروگے اور تم لوگوں سے کچھ بھی نہیں مانگوگے ۔ راوی نے کہا میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اُن کا کوڑا گرجاتا تو وہ سواری سے اُترتے اور اس کو اُٹھاتے مگر کسی سے سوال نہیں کرتے ۔
بعض خواتین نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروگی چوری نہیں کروگی ، بدکاری نہیں کروگی ، اپنے لڑکے کو قتل نہیں کروگی ، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی بہتان نہیں گھڑوگی اور تم نوحہ نہیں کروگی ‘‘۔ (مسند امام احمد) حضرت سعد بن ربیع نے نافرمانی نہ کرنے اور جھوٹ نہ کہنے پر نبی اکرم ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی ۔ (سیرت حلبیہ۲؍۱۸)مسند احمد ۵؍۱۷۲ میں ہے کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ نے طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کیا تم ایک بیعت کروگے ، تمکو جنت ملے گی ، میں نے عرض کیا، ضرور : میں نے اپنے ہاتھ پھیلادیئے نبی اکرم ﷺ نے شرط رکھتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں سے کچھ بھی نہیں مانگو گے میں نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : حتی کہ تمہارا کوڑا بھی اگر گرجائے تو تم اُترکر لوگے ۔
حضرت جریر بن عبداﷲ بجلی نے نبی اکرم ﷺ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے پر بیعت لی تھی ۔( سنن نسائی )حضرت اسعد بن زرارہ نے عہد و پیمان کو پورا کرنے پر بیعت لی تھی (سیرت حلبیہ ) لہذا مندرجہ بالا نصوص قرآنی و احادیث شریفہ اور مرویات صحابہ سے بیعت لینا بالخصوص مخصوص صحابہ کرام سے مخصوص اعمال و افعال پر خصوصی بیعت لینا بھی ثابت ہے ۔ اس لئے صوفیاء کرام مریدین کی اصلاح و روحانی ترقی کے لئے بیعت لیتے ہیں جو شرعی نقطہ نظر سے خلاف سنت یا بدعت نہیں بلکہ وہ نبی اکرم ﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے ۔
بلاشبہ ہرعالم اور بزرگ بیعت لینے کا مجاز نہیں ، اس کے لئے کسی پیر و مرشد کا خلیفہ یا اجازت یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ فقہاء کرام نے اس پر خلفاء راشدین کے طریقۂ بیعت سے استدلال کیا۔
نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد صحابہ کرام کے اتفاق و اجماع سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے سب نے حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دست مبارک پر بیعت کی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے وصال کا وقت آیا تو آپؓ نے حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا ، حضرت عمرؓ نے اپنے بعد خلافت کے لئے مجلس شوریٰ مقرر کی ، اس مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا، بعدازاں اسی طریقہ پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان ہوا ۔ پس انہی طریقہ ہائے خلافت پر جانشین نامزد کرنے اور بیعت لینے کیلئے اہلیت و استحقاق کی بنیاد رکھی گئی ۔ چنانچہ اگر کوئی سجادہ نشین صاحب اجازت بزرگ انتقال کرجائیں اور انھوں نے اپنا جانشین مقرر نہ کیا ہو تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے مطابق تمام مریدین و وابستگان سلسلہ کے اتفاقی فیصلہ سے کسی کو جانشین نامزد کیا جائیگا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہیکہ صاحب اجازت بزرگ اپنی حین حیات اپنا جانشین نامزد کردے جس طرح حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کردیا تھا ۔ تیسرا طریقہ تو یہ ہیکہ صاحب اجازت بزرگ نے کسی کو جانشین نامزد نہ کیا ہو لیکن زندگی میں چند افراد کو خلافت و اجازت دی ہو تو وہ خلفاء باہمی رضامندی سے کسی کو جانشین کرسکتے ہیں جس طرح حضرت عمرؓ کی ترتیب کردہ مجلس شوریٰ کے فیصلہ سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت عمل میں آئی ۔ ( تفصیلات کیلئے دیکھئے فتاوی صدارت العالیہ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی رحیم الدین رحمہ اللہ ) مرید بنانے کیلئے باضابطہ کسی صاحب اجازت بزرگ سے اجازت و خلافت ضروری ہے اور ثبوت خلافت کے لئے بینۂ شرعی یا شہادت شرعی لازم ہے ۔