بینک دھوکہ بازوں کو راحت

   

مرکز کی بی جے پی حکومت کی مالیاتی خرابیوں اور دھاندلیوں کا دھیرے دھیرے پتہ چل رہا ہے ۔ ہندوستانی بینکوں سے کروڑہا روپئے کا قرض لے کر ملک سے فرار ہونے والے کئی بدعنوان صنعتکاروں کی درپردہ سرپرستی کرنے اور ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) کے ذریعہ ان مالیاتی دھوکہ بازوں کو راحت پہونچانے کی رپورٹ تشویشناک ہے ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے حق معلومات قانون کے تحت موصولہ ایک جواب کے حوالے سے مرکزی بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا کہ مودی حکومت نے 50 سرفہرست قرض نادہندگان کے 68,607 کروڑ روپئے کے بقایا جات معاف کردئیے ہیں ۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی راتوں رات ٹوئیٹر پر 13 جوابی پوسٹ اپ لوڈ کرتے ہوئے وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے راہول گاندھی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ یہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جب کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے پارلیمنٹ سیشن کے دوران ان 50 سرفہرست بینک قرض نادہندگان کے نام دریافت کیے تھے تو وزیر فینانس نے اس کا جواب پیش کیا تھا ۔ اب حق معلومات قانون (RTI) کے تحت پوچھے گئے سوال پر ریزرو بینک آف انڈیا نے فہرست دی ہے جس میں نیرو مودی ، میہول چوکسی اور وجئے مالیہ کے نام بھی شامل ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ مودی حکومت ان بڑے صنعتکاروں کے نام عوام کی محنت کی کمائی کو لُٹا کر مالیاتی بدعنوانیوں پر اس طرح پردہ ڈالتی ہے تو پھر اس ملک کی معیشت کو شدید نقصان ہی ہوگا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پوری دیانتداری سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کے کالے دھن کو واپس لائیں گے اور ان کی حکومت میں کرپشن کا نام و نشان نہیں ہوگا لیکن 2014 سے لے کر 2020 کے آنے تک ان کی حکومت کی ہر ایک نا اہلی عوام کے سامنے ظاہر ہورہی ہے ۔ ایک کمزور اپوزیشن کے سامنے حکومت نے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا ہے تو اس پر سوال تو اٹھیں گے ہی ۔ آر بی آئی نے جن 50 دھوکہ بازوں کے نام ظاہر کئے ہیں ان میں اکثریت بی جے پی کے دوستوں کی ہے اس سب سے بڑی دھوکہ بازی کو حکومت نے پارلیمنٹ کو بے خبر رکھا ۔ مالیاتی دھاندلیوں کی خبر سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا جانا ایک حکومت کی ذمہ داری کے مغائر حرکت ہے ۔ سچائی کو پوشیدہ رکھ کر اس حکومت نے ملک کے عوام کے سامنے خود کو بے نقاب کرلیا ہے ۔ وزیر فینانس سیتا رامن نے راہول گاندھی کے الزام کا گول مول طریقہ سے جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔

اس میں بھی وہ سچائی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آر بی آئی نے غیر کارکرد اثاثہ جات کے لیے چار سال قبل چند دفعات کے حوالے سے اقدامات کئے تھے اور ان دفعات کی بنیاد پر ہی آر بی آئی نے کام کیا ہے جب کہ قرض کے حصول کے لیے بینکوں کی جانب سے مساعی جاری ہے ۔ سیتا رامن نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان قرض نادہندگان نے قرض کی ادائیگی کی گنجائش کے باوجود رقومات ادا نہیں کیں اور بینک کی اجازت کے بغیر اپنے فنڈس کو دیگر کاموں میں مشغول کیا اور محفوظ اثاثہ جات کو بھی فروخت کردیا ۔ جب حکومت کو اس بات کی اطلاع ہے کہ قرض نادہندگان نے بینکوں کی اجازت کے بغیر اپنے محفوظ اثاثہ جات کو ٹھکانے لگادیا ہے تو اس کو فوری کارروائی کرتے ہوئے قرض کی وصولی کے لیے شکنجہ کسنا چاہئے تھا لیکن کانگریس کی سابق یو پی اے حکومت کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر وزیر فینانس اپنی حکومت کی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ رہی ہیں جب کہ حقیقت یہ بتائی جارہی ہے کہ مودی حکومت کے دور میں ہی کئی قرض نادہندگان یا بینک کے دھوکہ بازوں کو اس ملک سے محفوظ طور پر بیرون ملک روانہ ہونے کا موقع دیا گیا ۔ سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے نرملا سیتا رامن کی اس ٹوئیٹر پوسٹ کے جواب میں کہا کہ جب حکومت کو معلوم تھا کہ یہ قرض نادہندگان نے بینکوں کو دھوکہ دیا ہے تو انہیں فنی بنیاد پر قرض کی ادائیگی میں راحت کیوں دی یا قرض معاف کیوں کیے گئے ۔ جرم کرنے کے بعد ان مالیاتی مجرموں کو ملک سے فرار ہونے دیا گیا تو یہ غلطی کس کی ہے ۔ اب جب کہ یہ تمام دھوکہ باز ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور انہیں مفرور قرار دیا گیا ہے تو ان تمام مفرور دھوکہ بازوں پر آر بی آئی کے قانون قرض معافی کا اطلاق نہیں ہوتا پھر بھی قرض معافی کے دفعات کے تحت ان کے قرضے معاف کرتے ہوئے حکومت نے آر بی آئی کے سہارے اپنے دوستوں کو بری الذمہ کردیا جو ہندوستانی عوام کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے جن کا مودی حکومت کو جواب دینا ہی ہوگا ۔۔