بیٹوں کو پڑھائو، بیٹیوں کو بچائو

   

محمد مصطفی علی سروری
جی شیو شنکر اگرچہ پوسٹ گریجویٹ اسٹوڈنٹ ہے لیکن ساتھ میں وہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا ہے۔ شہر حیدرآباد میں شیو شنکر گائوں سے آیا ہوا ہے۔ گائوں میں اس کے والد کپاس کی کاشت کرتے ہیں لیکن کھیتی میں مسلسل نقصان ہونے کے سبب شیو شنکر کو اپنی تعلیم کے لیے اپنے والد سے پیسے منگواتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس وجہ سے شیوشنکر نے اپنے کالج کے اوقات کے بعد پارٹ ٹائم میں نوکری شروع کردی ہے۔ قارئین ذرا یہ بھی جان لیجئے کہ شیو شنکر کس طرح کا کام کرتا ہے۔ جی ہاں شیو شنکر لوگوں کے گھر صفائی کا کام کرتا ہے۔ The News Minute ویب سائٹ کے مطابق شنکر پڑھائی کے ساتھ اوسطاً 30 ہزار کما رہا ہے۔ TNM ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے اس نے بتلایا کہ گھروں کی صفائی کے دوران مجھے لوگوں کے بیت الخلاء بھی صاف کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بات میں نے اپنے والد کو نہیں بتلائی۔ میرے گھر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں شہر حیدرآباد کے کسی ٹکنالوجی کی کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ شنکر نے امید ظاہر کی کہ جب اس کی تعلیم مکمل ہوجائے گی تو وہ بھی واقعی ایک بڑی آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے لگے گا۔ کیا شنکر روزآنہ کام پر جاتا ہے۔ جی نہیں شنکر ہر روز تو اپنی تعلیم کے لیے کالج کو جاتا ہے لیکن ہر ہفتے میں دو دن وہ اپنے پارٹ ٹائم جاب کے لیے نکال لیتا ہے۔ اس کے مطابق وہ ایک ایسی کمپنی کے لیے کام کر تا ہے جہاں صفائی کے کام آن لائن بک کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہر ہفتے کے دوران میں ایک گھنٹہ بھی کام کروں تو مجھے 600 تا 1000 روپئے مل جاتے ہیں اور ایک اچھے دن مجھے چار جگہ کام کی بکنگ مل جاتی ہے۔ شنکر نہ صرف اپنی پڑھائی کا خرچہ خود برداشت کر رہا ہے بلکہ اپنے گھر والوں کی مدد کے لیے کچھ پیسے گھر بھیج دیتا ہے۔ شیو شنکر اس پارٹ ٹائم جاب کو مستقل طور پر اپنانا نہیں چاہتا ہے اور اپنی پڑھائی کے متعلق پر امید ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک اچھی کمپنی میں جاب کرے گا۔
شہر حیدرآباد کا جغرافیائی نقشہ تو بہت حد تک بدل چکا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ شہر میں کاروبار، معیشت بھی بدل گئے ہیں۔ شیو شنکر کی طرح سینکڑوں نوجوان ہیں جو Part Time کام کر کے اپنے لیے ذرائع آمدنی پیدا کر رہے ہیں۔ پشپیتا ساہا پہلے Amazon کمپنی میں کام کرتی تھی۔ 2017ء میں ایک ایکسڈنٹ کے بعد اس نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ نوکری چھوڑ دینے کے بعد پشپیتا نے خود روزگار نظریہ کے تحت اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا اور قارئین آپ حضرات کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس خاتون نے کتوں کو تربیت دینے کا پروگرام شروع کردیا۔ اسی شہر حیدرآباد میں جہاں GHMC نے کتوں کے لیے علیحدہ سے پارک بنا رکھا ہے وہاں پر کتے پالنے کے شوقین افراد کی بھی کمی نہیں ہے۔ پشپیتا ساہا پچھلے تین برسوں کے دوران کتوں کو تربیت دینے کے کام میں اتنی مہارت حاصل کرچکی ہے کہ وہ Dog Training کے ساتھ Pet boarding پالتوں جانوروں کے لیے اقامت خانہ بھی چلا رہی ہے۔
ان سب خدمات کے عوض آج پشپیتا (Pushpeta) کا ماہانہ کاروبار ایک لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے۔ ( بحوالہ ٹی این ایم ڈاٹ کام رپورٹ۔ 11؍ مئی 2019)

ایم گوپی کی عمر 28 سال ہے۔ اگرچہ وہ ایک آئی ٹی پروفیشنل ہے لیکن اپنے اضافی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی ٹو وہیلر کو (Bike Taxi) کے طور پر چلارہا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے گاڑیاں چلانا پسند ہے اور نئے لوگوں سے ملنا بھی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے شوق کو بھی پورا کروں اور تھوڑے زائد پیسے بھی کمائوں میں (Rapido) کے لیے ہمیشہ گاڑی نہیں چلاتا ہوں ۔مجھے ویک اینڈ کے لیے خرچے کے پیسے جب چاہیے ہوتے ہیں تو میں اپنی بائیک ٹیکسی چلاکر پیسے جمع کرلیتا ہوں۔ یہ بات گوپی نے ٹی این ایم کے نمائندے ایم کے متھن کو بتلائی۔
قارئین میں کسی کو بیت الخلاء کی صفائی کا کام کرنے کی ترغیب نہیں دلا رہا ہوں ۔ ہاں میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان محنت کرنے کا طریقہ بھی جانیں اور محنت کر کے پیسے کمانا بھی سیکھیں۔
شانو بیگم کا تعلق دہلی کے امبیڈکر نگر سے ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد شانو کے لیے اپنی دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کی تعلیم و تربیت اور پرورش کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگیا۔ کیونکہ شانو نے نہ تو تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی کبھی نوکری کی تھی۔ 2005ء میں بیوگی کا لبادہ اوڑھنے کے بعد شانو نے پیسے کمانے کے لیے سڑکوں پر گھوم کر کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی نہیں ملی تو بطور باورچی کام کرنا شروع کیا۔ اس میں بھی کمائی مشکل سے ہو رہی تھی تو لوگوں کے گھروں میں بطور خادمہ کام شروع کیا۔ اس دوران کسی نے شانو بیگم کو بتلایا کہ آزاد فائونڈیشن کی جانب سے عورتوں کو بھی گاڑی چلانے کی تربیت دی جارہی ہے تو شانو نے ٹیکسی چلانا سیکھنے کا 6 مہینے کا کورس پورا کرلیا۔ شانو نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ڈرائیونگ اس لیے بھی کی کیونکہ اس کا شوہر بھی ڈرائیونگ کرتا تھا۔ شائد اس لیے بھی شانو کو ڈرائیونگ سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ جب شانو نے اپنا ڈرائیونگ کا کورس پورا کرلیا تو اب وہ کسی ٹیکسی کمپنی میں گاڑی چلاکر پیسے کمانا چاہتی تھی اور جس کے لیے اس کو بیاچ نمبر چاہیے تھا اور بیاچ نمبر حاصل کرنے کے لیے اس کو میٹرک پاس کرنا ضروری تھا۔ شانو شادی سے پہلے ہی اسکول چھوڑ چکی تھی اور اب اس کو آگے کے راستے بند نظر آرہے تھے ۔ ایسے میں شانو بیگم کی لڑکیوں نے اپنی ماں کو سمجھایا کہ اجی امی تم بھی دسویں کا امتحان لکھو۔
اور پھر 40 برس کی عمر میں ایک بیوہ ماں نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے دسویں کی پڑھائی شروع کی۔ دن میں محنت کرتی اور رات میں پڑھائی۔ محنت اس لیے کہ گھر کا خرچہ نکلنا ضروری تھا اور پڑھائی اس لیے کہ اوبر کمپنی میں ٹیکسی چلانے بیاچ نمبر حاصل کرنا تھا اور بیاچ نمبر حاصل کرنے دسویں پاس کرنا ضروری تھا۔
CNBC چیا نل سے بات کرتے ہوئے شانو بیگم نے بتلایا کہ 40 سال کی عمر میں اس نے دسویں کا امتحان لکھ کر کامیابی حاصل کی اور پھر بیاچ نمبر حاصل کر کے پورے دہلی میں Uber کمپنی میں کار چلانے والی پہلی خاتون ڈرائیور بن گئیں۔
اپنی بڑی لڑکی کی شادی کردینے کے بعد شانو بیگم اب اپنی دوسری لڑکی کو بی اے میں اور لڑکے کو گیارہویں میں پڑھا رہی ہیں۔ شانو صبح 6 بجے سے دوپہر ایک بجے تک پہلی شفٹ میں گاڑی چلاکر دوپہر میں گھر واپس آجاتی ہیں۔ گھر کے کاموں اور کھانے سے فراغت حاصل کر کے تھوڑا سا آرام اور پھر شام 5 بجے سے شانو بیگم کی دوسری شفٹ شروع ہوجاتی ہے جو رات کے 10 بجے تک چلتی ہے۔

(بحوالہ CNBC TV 18 کی رپورٹ۔ بدلتا ہندوستان۔ 9؍ مئی 2019)
شانو بیگم کی مثال اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خراب حالات کا سامنا کرنے کے لیے تعلیم کو جب ہتھیار بنایا جاتا ہے تو آگے بڑھنے کا سفر آسان ہوجاتا ہے۔
نہ تو بیت الخلاء کی صفائی کا کام کرنا خراب ہے اور نہ مسلم عورتوں کا پریشان حالات میں گاڑی چلانا سیکھنا خراب بات ہے۔ ہاں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا اور محنت سے جی چرانا خراب بات ہے۔
ایس ایس سی 2019ء کا نتیجہ نکل چکا ہے اور حسبِ روایتِ سابق اس مرتبہ بھی ایس ایس سی کے امتحان ٹاپ کرنے والوں میں لڑکیاں، لڑکوں سے بازی لے گئیں۔ یہ ایک بہت سنجیدہ سماجی مسئلے کی عکاسی کرتی ہوئی صورتحال ہے۔
ماں باپ کا بے جا لاڈ و پیار لڑکوں کو نہ صرف تعلیمی میدان میں پیچھے کر رہا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں لڑکے لڑکیوں سے پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔
مائیں اپنے لڑکوں کو کیسے بگاڑتی ہیں ذرا ملاحظہ کیجیے۔ ایک گورنمنٹ ڈگری کالج کی مسلم لڑکی بتلاتی ہے کہ Sir سر! کہنے کو ہمارے مذہب اسلام نے لڑکا اور لڑکی کے درمیان کسی طرح کا کوئی امتیاز نہیں برتنے کو کہا ہے لیکن عملی طور پر ہم مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات صرف اپنے مطلب کے لیے باقی رہ گئی ہیں۔
مسلم سماج میں لڑکیوں کے مسائل پر تقریر کرتے ہوئے لڑکی کہتی ہے آج بھی یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے ہاں بھی لڑکیوں کی پیدائش پر ماں باپ کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں اور لڑکوں کی پیدائش پر ایسے خیر مقدم کیا جاتا ہے جیسے کسی شاہزادے کی آمد ہو اور لڑکی کو اسکول سے لے کر کالج، گھر کے دسترخوان سے لے کر دعوت میں جانے کے لیے پہنے جانے والے کپڑوں تک ہر قدم پر یہی سکھایا جاتا ہے کہ تمہاری شادی کرنی ہے اور نئے کپڑوں کی فرمائش پر کہا جاتا ہے کہ تمہاری شادی میں بھی تو اچھے کپڑے دینا ہے اور لڑکے کے معاملے میں گھر کے دسترخوان پر جب بھی بیٹھے اس کے لیے تازہ روٹیاں ڈالنے کا اہتمام اور ٹھنڈی روٹی اور سالن بہن کے کھاتے میں آتی ہے۔ بھائی کے لیے جب وہ چاہے نئے کپڑے بن جاتے ہیں، لڑکی کے لیے کیا کرنا ہے؟ پرانے کپڑے بھی تو اچھے ہیں۔ لڑکی اپنی سہیلی سے ملنے کے لیے نہیں جاسکتی اور لڑکا آدھی رات کو بھی باہر جاکر مندی کھا سکتا ہے۔ نیا فون پہلے بھائی کی ضرورت ہوتا ہے اور بہن کی باری آخر میں آتی ہے۔ لڑکی فیل ہوجائے تو اس کو چولہا بھجوانے کی تیاری اور لڑکا فیل ہوجائے تو ارے میرا بچہ تو پڑھائی کو پختہ کر رہا ہے کا معاملہ ہوتا ہے۔ لڑکی کو ماہانہ جیب خرچ 500 روپئے نہیں ملتا اور بھائی ہر روز 100 روپئے پٹرول کے نام پر لے لیتا ہے۔ بظاہر تو تقریری مقابلہ میں کی جانے والی لڑکی کی تقریر تھی۔ لیکن مجھے لگ رہا تھا یہ مسلم سماج پر اور مجھ پر کسے جانے والے طعنے تھے۔ میں اپنے دامن میں جھانکنا نہیں چاہتا تھا اور ایک لڑکی مجھے آئنہ دکھا رہی تھی۔ اسی لیے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے لڑکوں کی بھی صحیح تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com