ہر ایک قدم پہ کئی راستے بدلتا ہے
وہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
بھارت راشٹرا سمیتی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کیلئے اپنے انتخابی منشور کی اجرائی عمل میں لائی ہے۔ اس منشور کو عوام کیلئے پرکشش بنانے کی ہر ممکن کوشش پارٹی نے اپنے طور پر کی ہے اورا سے ایک انتہائی بہتر منشور قرار دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اس کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اس منشور میں ریاست کے تمام طبقات کیلئے محض دل خوش کن وعدے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے اپنے منشور سے قبل جو وعدے کئے تھے ان کی نقل کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے اعلانات کو ناقابل عمل خود بی آر ایس نے قرار دیا تھا اور انتخابات میں عوام کو گمراہ کرنے اب اس سے زیادہ سہولیات کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ جب کانگریس کے وعدے ناقابل عمل ہیں تو پھر بی آر ایس کس طرح سے ان وعدوں پر عمل کرسکتی ہے ۔ سماج کے دیگر طبقات سے تو جو وعدے کرنے تھے وہ کئے گئے ہیں لیکن اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو بری طرح سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں سے تلنگانہ تحریک میں 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے اب پارٹی کے منشور میں اس کا تذکرہ تک کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی آر ایس عملا خود کو مسلمانوں سے لا تعلق کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے اسی لئے مسلمانوں کیلئے اس منشور میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ 12 فیصد تحفظات مسلمانوں کی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی او ر تعلیمی حالت کو سدھارنے کیلئے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ اب تو بی آر ایس کی چندر شیکھر راو حکومت میں سابق میں راج شیکھر ریڈی کی کانگریس حکومت میں دئے گئے چار فیصد تحفظات کو تک غیر محسوس طریقے سے گھٹانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ان تحفظات کو نت نئے بہانوں سے تین فیصد کیا جا رہا ہے۔ اس کی بھی منشور میں کوئی وضاحت نہیںکی گئی ہے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوںکیلئے منشور میں کوئی نئی اسکیم بھی شروع نہیں کی گئی ہے۔ پہلے سے جو اسکیمات چل رہی ہیں ان کو برقرار رکھنے کے سلسلہ میں بھی کوئی واضح اعلان بی آر ایس منشور میں نہیں کیا گیا ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔
مسلمانوں کی لاکھوں کروڑ روپئے کی اوقافی جائیدادوں کے تعلق سے بھی منشور خاموش ہے ۔ ان جائیدادوں کے تحفظ کیلئے کسی طرح کے اقدامات کا کوئی تذکرہ منشور میں نہیں کیا گیا ہے ۔ ریاست میں اوقافی جائیدادوں کو انتہائی منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے ۔ وقف بورڈ کا ریکارڈ رقم اب بھی مقفل ہے اور اس کو کھولنے کا بھی کوئی تیقن نہیں دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کیلئے مسلم بندھو اسکیم کا اعلان کرنے کا جھانسہ دیا گیا تھا تاہم منشور میں اس کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی آر ایس اور کے سی آر اب مسلمانوں سے تسلی آمیز سلوک کے بھی روادار نہیں رہ گئے ہیں۔ دیگر طبقات کی طرز پر مسلمانوںاور اقلیتوں کیلئے ٹی پرائم اسکیم کا بھی پارٹی نے وعدہ کیا تھا اور اب اس کو بھی فراموش کردیا گیا ہے۔ اس پر بھی پارٹی کے منشور میں مکمل سکوت اور خاموشی ہے ۔ کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ منشور میںصرف ایک جملہ کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے بجٹ میں اضافہ کیا جائیگا ۔ یہ کہیں تذکرہ نہیں ہے کہ یہ اضافہ کتنا ہوگا اور کب کیا جائیگا ۔ پہلے ہی ریاست میں اقلیتوں کیلئے انتہائی معمولی بجٹ دیا جاتا ہے اور اس کو بھی مکمل جاری کرنے میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ ہر سال کروڑہا روپئے اقلیتی بجٹ کے سرکاری خزانہ میں واپس کردئے جاتے ہیں۔ شائد ہی کوئی سال ایسا ہو جس میں اقلیتوں کا مکمل بجٹ جاری کیا گیا ہو ۔
اب جبکہ ریاست میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے اور انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں تب بھی بی آر ایس اور کے سی آر نے اپنے منشور میں مسلمانوں او ر اقلیتوں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔ ایک طرح سے مسلمانوں کے وجود سے ہی انکار کردیا گیا ہے ۔ پہلے تو کم از کم وعدے کرکے دھوکہ دیا جاتا تھا ۔ جھانسہ دیا جاتا تھا لیکن اب سارے منشور میں محض ایک وعدہ تک نہیں کیا گیا اور سابقہ وعدوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ یہ ریاست کی اقلیتوں کے تئیں بی آر ایس کی بے رخی اور لا پرواہی ہے اور ایک طرح سے اقتدار کا نشہ ہے۔ ریاست کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے وقت ان تمام امور کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پوری سیاسی سمجھ بوجھ اور فہم و فراست کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہئے ۔