بی جے پی حکومت میں دستوری اِداروں کی حالت ِزار

   

غضنفر علی خان

بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت اِس وقت ملک اور قوم کو درپیش مسائل پر کوئی توجہ کئے بغیر اس کوشش میں مصروف دِکھائی دے رہی ہے کہ ہندوستان سے اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا قلع قمع کردیا جائے اور اس معاملے میں بی جے پی کا نشانہ زیادہ تر کانگریس پارٹی بنی ہوئی ہے۔ مستقبل میں کانگریس ایک پارٹی کی حیثیت سے برقرار رہتی ہے یا نہیں، اس بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ آج کے ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد تو اسی کانگریس پارٹی نے رکھی تھی، اپنے طویل اور مستحکم دورِ حکومت میں کانگریس پارٹی نے جن جمہوری اور دستوری اِداروں کو سنوارا تھا، آج بی جے پی کی مودی حکومت ان ہی کو بٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایسا اس لئے کیا گیا جارہا ہے کہ حکمرانی میں جن اُمور کو ترجیح دینی چاہئے، اس کا کوئی تجربہ بی جے پی اور خاص طور پر اس کے صفِ اول کے لیڈرس کو بھی نہیں ہے، جن میں خود وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں، اس وقت اقتدار کے نشہ میں دُھت بی جے پی یہ سمجھ رہی ہے کہ اقتدار کی دیوی اس پر ہمیشہ مہربان رہے گی جبکہ اقتدار سے زیادہ اور کوئی چیز اتنی لااعتبار نہیں ہے جتنی کہ خود اقتدار ہے۔ یہ حکومت اس بات کا کوئی خاکہ اپنے ذہن میں نہیں رکھتی کہ ملک کو اس وقت کیا مسائل درپیش ہیں اور ان کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور کمزوری یہ ہے کہ یہ حکومت خود کو دیگر سیاسی طاقتوں سے زیادہ اہم اور ناقابل تسخیر سمجھنے لگی ہے۔ اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اتنی بڑی انتخابی کامیابی کے بعد کانگریس کو اپنا حریف سمجھنا بجائے خود ایک غلطی ہے چنانچہ وزیراعظم مودی کے پاس بیروزگاری اور صنعتی، زرعی، پیداوار میں کمی کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ ملک کی معیشت مائل بہ زوال ہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد ہی کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں، خود سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں ہماری تمام پیداوار پچھلے چھ مہینوں میں بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ملک کی داخلی صیانت کو کیا خطرہ لاحق ہے، چونکہ داخلی صورت حال سے بے خبر مودی حکومت ان مسائل پر توجہ مبذول کی ہوئی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یکساں سیول کوڈ، طلاق ثلاثہ کی روک تھام اتنے اہم مسائل نہیں ہیں جتنا کہ ہجومی تشدد میں مسلمانوں کی ہلاکت ہے۔ اس بارے میں کوئی سوچ حکومت نہیں رکھتی ہے، حالانکہ یہ بہت بڑا خطرہ ہے اگر اس کو دور نہیں کیا گیا تو ملک کا نظم و نسق اور اس کی صیانت کو مستقبل میں بے شمار خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس مسئلہ کی یکسوئی کے بجائے حکومت نے تغافل کا رویہ اختیار کیا ہے، یہ ایسے مسائل ہیں جن کی یکسوئی کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔ ان موذی حل طلب مسائل کے بجائے حکومت کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کس طرح سابق کانگریسی حکومتوں کو ذلیل و خوار کیا جائے۔ اس لئے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں کہ کانگریس پارٹی کے لیڈرس کو خوف کی نفسیات میں پھانسا جائے چنانچہ سابق وزیر فینانس اور کانگریس کے لیڈر پی چدمبرم کو قانون کے شکنجہ میں جکڑنے کی ہر ممکن مرکزی حکومت کوشش کررہی ہے۔ اپنے طویل دور اقتدار میں کانگریس کے چند اہم سینئر لیڈرس نے بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا ہوگا۔ بی جے پی ان کی گرفتاری اور انہیں جیل بھجوانے کے کاموں میں مصروف ہے۔ بے شک کوئی شخص قانون کی گرفت سے آزاد نہیں ہے، کسی پارٹی کے لیڈرس کو اس لئے کئے ،کرائے کی سزا ملنی چاہئے لیکن سارے مسائل کو درکنار کرتے ہوئے صرف کانگریس اور اپوزیشن کے لیڈرس کی گرفتاری اور ان کو سزا دینے کی کوشش ہی ہمارے مسائل کا حل رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس کے بعض اہم لیڈرس نے بھی کوئی ایسا کام کیا ہوگا کہ وہ قانون کی نظر میں جرم کہلائے۔ اس سے پہلے ہمارے ملک میں جبکہ آنجہانی اندرا گاندھی ملک کی وزیراعظم تھیں، اس وقت یہ برسراقتدار لیڈرس کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی تھی اور اس کے بعد جو عام انتخابات ہوئے تھے، اس میں کانگریس کو بڑی ہزیمت اُٹھانی پڑی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ملک میں پہلی بار غیرکانگریسی حکومت بنی تھی۔ انتخابات کے بعد ’’جنتا پارٹی‘‘ جو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا نمائندہ بنی ہوئی تھی، اقتدار حاصل کیا تھا اور مُرارجی دیسائی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس حکومت نے بھی انتقامی سیاست کی روش اختیار کی تھی اور چن چن کر کانگریس لیڈرس کو اسی طرح ہراساں کیا تھا جس طرح آج کیا جارہا ہے۔ کانگریس لیڈرس کے خلاف تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جو ان اُمور کا جائزہ لے رہا تھا، کوئی 28 مہینوں تک اس کمیشن نے جسے کامل اختیارات حاصل تھے، ناکام ہونا پڑا اور وہی عوام نے کانگریس پارٹی کو اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اقتدار سونپا۔ اس کمیشن کا نام ’’شاہ کمیشن‘‘ تھا۔ کانگریس کے لیڈرس کو حکومت نے اس کمیشن کے ذریعہ اتنا تنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی حد نہیں تھی، اب بھی کم و بیش وہی کیفیت دیکھی جارہی ہے۔ وزیراعظم مودی نے تو صاف طور پر کہا ہے کہ چدمبرم کے علاوہ اور کئی نامور لیڈر ہیں جن کے سَر پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ مودی نے یہ بھی کہا کہ ’’ابھی تو میں نے کچھ کانگریس لیڈرس کو عدالت کے دروازہ تک پہنچایا ہے، ابھی بہت سارے کانگریسی لیڈرس صف باندھے کھڑے ہیں جن کا انجام بھی یہی ہوگا‘‘۔ ان کے اس خیال آفرینی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مودی حکومت ملک میں انتقامی سیاست کا جذبہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ انتقامی سیاست کے اس چلن میں ہماری ساکھ بین الاقوامی برادری میں متاثر کردی ہے۔ اس کے لئے کئی دستوری اور بااختیار اِداروں کو استعمال کیا جارہا ہے جیسے الیکشن کمیشن اور سرکاری ایجنسیاں، سی بی آئی ، را اور دیگر اِداروں کو سخت نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کا کیا بھروسہ آج رہی، کل جاتی رہے گی، لیکن بااختیار دستوری اداروں کے غلط استعمال کی جو نظیر بی جے پی حکومت قائم کررہی ہے، وہ ہمارے جمہوری نظام کیلئے ناقابل برداشت ہے اور نقصان بھی پہنچا رہی ہے، چونکہ ان اداروں کی کارکردگی پر سے عوامی اعتماد تیزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے اور جس شدت کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے، اس سے سیاسی مبصرین نے اندازہ کرلیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہم کوئی قابل تقسیم، جمہوری نظام نہیں پیش کررہے ہیں بلکہ یہ پیام بھی دے رہے ہیں کہ اقتدار اور حکمرانی کسی سیاسی پارٹی کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ اداروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، حکومت چاہے تو اِن اداروں کا غلط استعمال کرسکتی ہے۔ ایسی کوشش سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری نظام (سکیولرازم) اور ملک کی تکثیری خصوصیت کو ملیامیٹ کرکے بھی حکومت کی جاسکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی نظر میں ہندوستان اور اس کی جمہوریت کوئی قابل احترام چیز نہیں ہے، ان کو قربان کرکے بھی حکومت کی جاسکتی ہے۔ اب جبکہ اس قسم کی مریضانہ فکر کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ چند سال تک حکومت باقی رہے گی لیکن مستقبل میں ایسی حکومت کا کوئی اعتبار نہیں رہے گا۔ اس لئے مودی حکومت کو اس قسم کی انتقامی سیاست کو ترک کردینا ضروری ہے۔ بی جے پی کے علاوہ اور دیگر جماعتیں بھی اس خوش فہمی کا شکار نہ رہیں کہ وہ جو ملک کے بارے میں سوچتے ہیں، وہی سوچ ہندوستان کے مستقبل کیلئے صحیح ثابت ہوگی۔ موجودہ دور میں مودی اور ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ کی یہ ٹھیکہ داری چلنے والی نہیں ہے کہ سوائے بی جے پی اور مودی و امیت شاہ ہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں، اس ملک میں اقتدار ہمیشہ کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ خاص طور پر ان پارٹیوں کی حکومتیں ختم ہوجاتی ہیں جو ملک سے زیادہ اپنی پارٹی کی حکومت کو اہم اور ناگزیر سمجھتے ہیں۔٭