بی جے پی کو حلیفوں کی تلاش

   

بی جے پی کو حلیفوں کی تلاش
آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے جہاں دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور ریاستی سطح پر اور قومی سطح پر ایک عظیم اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں وہیں بی جے پی نے بھی اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت نے ایک طرح سے اعلی طبقات کے معاشی کمزور افراد کیلئے 10 فیصد تحفظات کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تیاریوں کا بلکہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ گذشتہ کچھ دنوں سے وزیر اعظم نریندرمودی ملک کی مختلف ریاستوں کے بی جے پی کے بوتھ لیول سطح کے کارکنوں سے خطاب بھی کرر ہے ہیں۔ یہ بھی ان کی انتخابی تیاریوں کا حصہ ہے ۔ انتخابات کا عمل شروع ہونے سے قبل جہاں بی جے پی کو کچھ ریاستوں میں حلیف جماعتوں سے اختلافات کا سامنا ہے وہیں اب بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ ان حلیفوں کو منانے کے علاوہ نئی جماعتوں سے رابطے بحال کرنے کی کوششوں میں بھی جٹ گئی ہے ۔ گذشتہ انتخابات کے بعد این ڈی اے کا حصہ رہنے والی جماعتوں بہار کی آر ایل ایس پی اور آندھرا پردیش کی تلگودیشم کے علاوہ جموں و کشمیر کی پی ڈی پی اور کچھ دوسری چھوٹی جماعتیں این ڈی اے سے علیحدہ ہوچکی ہیں۔ بہار میں آر ایل ایس پی نے جے ڈی یو کی قیادت والے یو پی اے اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی ہے جبکہ تلگودیشم نے بھی کانگریس کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو تیز کردیا ہے ۔ پی ڈی پی سے بی جے پی کے دوبارہ اتحاد کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا میںبی جے پی کی دیرینہ حلیف شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات مستحکم نہیں ہیں اور شیوسینا حالانکہ اپوزیشن اتحاد کے ساتھ شامل نہیں ہے لیکن اس کے تیور بتار ہے ہیں کہ وہ برسر اقتدار این ڈی اے کے ساتھ بھی نہیں ہے ۔ پنجاب میں بی جے پی کو اکالی دل کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ اسی طرح ٹاملناڈو میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے ساتھ بھی بی جے پی تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کیلئے مختلف جماعتوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا زیادہ آسان نہیں رہ گیا ہے ۔
اب انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے اور بی جے پی کو حلیف جماعتوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی کے حلقوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جب تک بی جے پی کچھ علاقائی جماعتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا لیتی اس وقت تک اس کیلئے آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں رہ جائیگا ۔ کم از کم بی جے پی 2014 کے انتخابی نتائج کو دوہرانے کے موقف میں تو ہرگز نہیں ہے ۔ آئندہ انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دینے کیلئے ضروری ہے کہ بی جے پی کا انتخابی مظاہرہ بہتر ہو اور حلیف جماعتوں پر اس کا انحصار کم سے کم ہوتا جائے تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ بی جے پی کیلئے آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزوروم کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کے حلقوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے ۔ اسے احساس ہونے لگا ہے کہ اب ملک کے عوام اور رائے دہندے پارٹی سے دور ہوتے جا رہے ہیں یا پھر پارٹی کو عوام کی اتنی تائید حاصل نہیں ہے جتنی اسے 2014 میں حاصل ہوئی تھی ۔ بی جے پی کیلئے یہ احساس مشکلات کا باعث ہے کیونکہ پارٹی کسی بھی قیمت پر آئندہ اقتدار بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے وہ جو کچھ کرسکتی ہے وہ کرنا چاہتی ہے ۔ اسی سلسلہ میںپارٹی نے اعلی طبقات کے کمزور معاشی موقف رکھنے والے طبقات کیلئے تحفظات کا اعلان کیا ہے ۔
اب حلیف جماعتوں کی تلاش کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹاملناڈو میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے کو منانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں ۔ اسی طرح اترپردیش میں ‘ جہاں بی جے پی نے گذشتہ انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی ‘ اپنی کمزور ہوتی ہوئی حالت کو دیکھتے ہوئے اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کو اپنی صفوں میں لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیوسینا کو بھی منانے کی کوشش شروع ہوسکتی ہے ۔ کچھ اور علاقائی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کیلئے پارٹی نے در پردہ کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے اپوزیشن جماعتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں اور تمام علاقائی اور ریاستی جماعتوں کا ایک وسیع اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے تو بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔