ہم اپنے نفس سے پہلے ارادہ پوچھ لیتے ہیں
تو پھر سب کر گزرتے ہیں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے ۔ تین ریاستوں میں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے جبکہ کانگریس نے تلنگانہ میں اقتدار حاصل کیا ہے ۔ شمال مشرقی ریاست میزورم میں مقامی جماعت نے حکومت بنالی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کو تین ریاستوں میں اقتدار حاصل ہوا ہے لیکن ووٹوںکے معاملہ میں کانگریس بھی بی جے پی سے پیچھے نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انتخابی کامیابی نشستوں کی تعداد کی بنیاد پر شمار کی جاتی ہے اور اس معاملے میں بی جے پی نے سبقت بنالی ہے ۔ اب ملک میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ بتدریج ماحول پیدا ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی نے آئندہ انتخابات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ابھی سے اپنی در پردہ تیاریاںشروع کردی ہیں۔ بی جے پی نے جن تین ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار حاصل کیا ہے وہاںاس نے انتہائی غور و خوض کے بعد کافی وقت لیتے ہوئے چیف منسٹروںکا انتخاب عمل میںلایا ہے ۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے آزمودہ لیڈر کو چیف منسٹر کی ذمہ داری دی ہے ۔ وشنو دیو سائی پارٹی کے سینئر قائدین میں سے ہیں۔ قبائلی برادری کا چہرہ ہیں اور ان کا انتخاب عمل میں لاتے ہوئے بی جے پی پڑوسی ریاستوں اوڈیشہ ‘ تلنگانہ ‘ مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ تک اثر انداز ہونا چاہتی ہے جہاںقبائلی برادریوں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے ۔ بی جے پی وشنو دیو سائی کے انتخاب کے ذریعہ ان ریاستوں کے قبائلی عوام میں اپنے ووٹ شئیر کو بڑھانا اور اس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے ۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے موہن یادو کو وزارت اعلی کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ مسٹر موہن یادو پہلی مرتبہ کے رکن اسمبلی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کئی بڑے قائدین نے اسمبلی انتخاب جیتا ہے ۔ اس کے باوجود موہن یادو کو وزارت اعلی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اس کے ذریعہ بھی بی جے پی اترپردیش اور بہار پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے جہاں یادو برادری کے ووٹرس کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ وہاں بی جے پی کو یادو برادری کے ووٹ نہیںملتے ۔ بی جے پی آئندہ انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
اسی طرح راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھجن لال شرما کوریاست کا چیف منسٹر بنایا ہے ۔ راجستھان میں بھی کئی بڑے قائدین نے اور مرکزی وزرء نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ کئی نے وزارت اعلی کی دعویداری بھی پیش کی تھی ۔ تاہم پارٹی کی اعلی قیادت نے اپنے مستقبل کے منصوبوںکو پیش نظر رکھتے ہوئے بھجن لال شرما کو یہ ذمہ سونپا ہے ۔ بھجن لال شرما اعلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی کی یہ قدیم شبیہہ رہی ہے کہ وہ اعلی ذات والی کی پارٹی سمجھی جاتی ہے ۔ اس شبیہہ کو برقرار رکھنے اور اعلی ذات کے ووٹوںکوبھی اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کے طور پر بی جے پی نے بھجن لال شرما کو راجستھان کا چیف منسٹر بنادیا ہے ۔ بی جے پی نے تین چیف منسٹروںکے تقرر کے ذریعہ یہ پیام دیا ہے کہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاری شروع کرچکی ہے اور اس کیلئے ذات پات کے اعداد و شمار کو پوری طرح سے ذہن میں رکھتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کیلئے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی اہمیت کا اندازہ بھی اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی ابھی سے اس کی تیاریوں میں جٹ گئی ہے اور ذات پات کے اعداد و شمار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے ۔ یہ صورتحال اپوزیشن جماعتوںکے انڈیا اتحادکیلئے قابل غور ہے ۔ انڈیا اتحاد کی جماعتوں میں کئی ریاستوں کی علاقائی جماعتیں شامل ہیں۔ کئی جماعتیں سماج کے مختلف طبقات میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ یہ ووٹ بینک ایسا رہا تھا جو کسی دوسری جماعت اور خاص طور پر بی جے پی کو دستیاب نہیں ہوا کرتا تھا ۔ اب بی جے پی ان طبقات کے ووٹ حاصل کرنے کی بھی تیاری کر رہی ہے اور اس کیلئے بساط بچھا دی گئی ہے ۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو یہ بھی تاثر عام ہے کہ مسلمان کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو ووٹ نہیںدیتے ۔ تاہم بی جے پی آئندہ پارلیمانی انتخابات میںدس تا پندرہ فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنے کے منصوبوںپر عمل کر رہی ہے ۔ اس کیلئے راشٹریہ مسلم منچ کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیںاس کے علاوہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود کچھ مفادات حاصلہ اور مفاد پرست عناصر کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال مخالف جماعتوں کیلئے زیادہ فکر کی بات ہوسکتی ہے اگر وہ فوری حرکت میں نہ آئیں۔ اپنے اپنے حلقوں میں ان پارٹیوں کو اپنا موقف مستحکم کرنا ہوگا ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی کے ذات پات کی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرنے کے منصوبوںپر موثر ڈھنگ سے روک لگائی جاسکتی ہے ۔
تلنگانہ ‘ وعدوں کی تکمیل کے منصوبے
تلنگانہ میں دس سال کی جدوجہد کے بعداقتدار حاصل کرنے والی کانگریس اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے سرگرم نظر آتی ہے ۔ دو وعدوں پر عمل شروع بھی کردیا گیا ہے جبکہ مابقی چار ضمانتوں پر عمل کیلئے جملہ 100 دن کی مہلت مقرر کی گئی ہے ۔ ریاستی اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے گورنر کے خطاب کے ذریعہ حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ حکومت ان وعدوں پر عمل کیلئے منصوبے بنا رہی ہے ۔ حکومت کیلئے ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک تیز رفتاری سے کام کرتے ہوئے ان وعدوں پر عمل پیرائی شروع ی جائے جن کے ذریعہ اس نے عوام کی تائید حاصل کی ہے ۔ ان کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ قاتدار ملنے کے بعد وعدوں کو فراموش کردینا یا پھر ان وعدوں پر عمل آوری کو ٹالنا حکومت یا کانگریس پارٹی کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوگا ۔ خاص طور پر اس تناظر میں کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد بی آر ایس کیڈر کے حوصلے پست ہیں۔ آئندہ چار مہینوں میں لوک سبھا انتخابات کی بگل بج سکتا ہے ۔ ایسے میں اگر کانگریس پارٹی اپنے انتخابی وعدوں پر عمل کے سلسلہ میں سنجیدگی سے کام کرتی ہے اور عملی اقدامات کا آغاز کیا جاتا ہے تو پھر اس کے لوک سبھا انتخابات میں بھی پارٹی کوفائدے مل سکتے ہیں۔حالانکہ ابھی حکومت پر اس کیلئے دباو بنانا قبل از وقت ہوگا لیکن اس کیلئے کوششوں کا فوری آغاز بھی ضروری ہے ۔