ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
بی جے پی یا تو شدید سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے یا پھر اس کے پاس انتخابات جیتنے کیلئے عوام کی زندگیوں کی بھی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ نتیجہ بنگال بی جے پی کے اس بیان سے اخذ کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے انتباہ دیا ہے کہ کوچ بہار میں ایک پولنگ بوتھ کے باہر جس طرح کی فائرنگ ہوئی ہے اور نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ویسے اور بھی واقعات پیش آسکتے ہیں۔ یہ بیان انتہائی بدبختانہ اور افسوسناک ہے اور اس سے یہ بھی شبہات تقویت پاتے ہیں کہ یہ فائرنگ بی جے پی کے اشاروں پر ہی کی گئی تھی ۔ بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش ویسے تو ہمیشہ ہی متنازعہ اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان کے بیانات ان کے ذہنی توازن کے ٹھیک نہ ہونے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جیسے انہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا ہی نہ ہو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انہیں انتہائی اشتعال انگیز بیانات پر بھی کسی گوشے سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی ۔ انہوں نے آج ایک متنازعہ بیان جاری کرتے ہوئے ایک طرح سے بنگال کے رائے دہندوں کو ہی دھمکانے کی کوشش کی ہے ۔ دلیپ گھوش نے شمالی 24 پرگنہ ضلع میں ایک انتخابی ریلی سے ہی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوچ بہار میں شیتل کوچی کے مقام پر جس طرح کے نوجوان لڑکوں کو گولیاں ما ردی گئیں ویسے نوجوان بنگال میں باقی نہیں رہیں گے ۔ یہ تو صرف شروعات ہے ۔ گھوش کا کہنا تھا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ منہ توڑ رویہ اختیار کیا جائیگا ۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ دیھنا چاہئے کہ سیتل کوچی میں کیا ہوا ہے ۔ سیتل کوچی جیسے کیسیس کئی مقامات پر ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے نوجوانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ دلیپ گھوش نے اس طرح کے بیان کے ذریعہ بنگال کے ووٹرس کو خوفزدہ کرنے اور انہیں پولنگ بوتھس سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس بیان پر گھوش کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے عوام کو اطمینان دلانے اور پرامن رہنے کی تلقین کرنے کی بجائے گولیوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہوئے ملک کے جمہوری عمل کو متاثر کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ۔
ویسے تو بی جے پی کے کئی قائدین کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات دئے جاتے ہیں اور تقاریر کی جاتی ہیں تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جن ووٹرس کے ووٹ کے ذریعہ بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے انہیں رائے دہندوں کو دھمکایا جا رہا ہے ۔ تشدد کی کسی بھی قیمت پر کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اور ملک میں برسر اقتدار ہونے کے ناطے بی جے پی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ بننے کیلئے عوام کی حوصلہ افزائی کرے ۔ بی جے پی کو اپنی عوامی مقبولیت کا یقین ہے تو اسے ووٹرس کو دھمکانے سے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ملک بھر میں یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ انتخابی عمل سے بیزار عوام کو دوبارہ جمہوری عمل کا حصہ بننے کی ترغیب دی جائے ۔ انہیں پولنگ بوتھس تک لا یا جائے تاکہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیںا ور اس کے نتیجہ میں ملک کی جمہوریت پر عوام کا ایقان مستحکم ہو اور جمہوریت کو استحکام مل سکے تاہم دلیپ گھوش کا بیان اس ساری کاوش کے مغائر ہے اور اس سے ان کی انتہائی ابتر ذہنیت کا پتہ چلتا ہے ۔ بی جے پی کے اعلی قائدین ہمیشہ کی طرح اس بیان پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرینگے بلکہ اس کی تاویل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ الیکشن کمیشن کو بھی اس بیان کا نوٹ لینا چاہئے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے یا پھر انہیں انتخابی مہم میں حصہ لینے سے باز رکھنے کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ تاہم الیکشن کمیشن سے بھی اس طرح کے معاملات میں کسی موثر کارروائی کی امید کرنا بھی فضول ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔
دلیپ گھوش کی دھمکی کے بعد بنگال کے عوام کو بی جے پی اور اس کے قائدین کی ذہنیت اور ان کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کے اعلی قائدین کسی بھی قیمت پر صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں عوام کی زندگیوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ملک کے نوجوان اگر کسی موقع پر قانون کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں تو ان کی سرزنش کی جانی چاہئے اور تادیبی و قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں راہ راست پر لایا جاسکتا ہے لیکن انہیں گولیوں کا نشانہ بنادینے یا پھر آئندہ بھی فائرنگ کیلئے تیار رہنے کی دھمکیاں نہیں دی جاسکتیں ۔ بی جے پی کو اور خاص طور پر دلیپ گھوش کو اس بیان پر معذرت کرنے کی ضرورت ہے ۔
