بی جے پی کی قوم پرستی اور انتخابی شطرنج

   

رام پنیانی

بی جے پی ایک نئی کئی طرح سے مختلف نوعیت کی پارٹی ہے۔ یہ بڑی انتخابی تنظیم ہے جو سکیولر و جمہوری قوم کے ہندوستانی دستوری اقدار کے مغائر انڈیا کو ہندو قوم قرار دیتی ہے۔ یہ واحد پارٹی ہے جو انتخابی شعبۂ آر ایس ایس ہے، اور یہ تنظیم کی تشکیل ہندو قوم پرستی کو آگے بڑھانے کیلئے ہوئی۔ بی جے پی کو انتخابی طاقت حاصل کرنے کا امتیاز بھی حاصل ہے جو فرقہ وارانہ تشدد میں اضافے کے متوازی ہے۔ یہ ایسی پارٹی بھی ہے جس نے جذباتی، تفرقہ پسند مسائل اور اپنی مخصوص نوعیت کی قوم پرستی سے متعلق مسائل کو اپنی سیاست میں مقدم رکھا ہے۔ اس کی 2014ء کے انتخابات اور پھر 2019ء کے عام انتخابات میں زبردست کامیابی نے ایسا تاثر پیدا کیا کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔ اس کے صدر امیت شاہ نے اعلان کردیا کہ بی جے پی اس ملک پر اگلے پچاس سال تک حکمرانی کرے گی۔ لہٰذا، جب اس کے اندازے جن کی کمرشیل میڈیا نے تائید کی کہ وہ 2019ء کے مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بہ آسانی بڑی فتوحات درج کرائے گی، دھول چاٹنے لگے تو اس کے انتخابی امکانات کے تعلق سے کچھ نئی سوچ شروع ہوئی ہے۔

جب نتائج سامنے آئے، بی جے پی ہریانہ میں سادہ اکثریت کے حصول سے پیچھے رہ گئی اور اسے تشکیل حکومت کیلئے دشیانت چوٹالہ کی جے جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ مہاراشٹرا میں اگرچہ وہ واحد بڑی پارٹی بن کر اُبھری، لیکن اپنے بل بوتے پر وہ سادہ اکثریت کے کہیں قریب تک نہیں اور برسہابرس سے اس کی انتخابی حلیف اس مرتبہ بڑی ٹھوس معاملت طے کرنے کوشاں ہے۔
عموی طور پر شیخی کی باتیں جو بی جے پی کی پہلے کی کامیابیوں کے بعد ہوا کرتی تھیں، اب کہیں نہیں، اور بعض مبصرین نے تو موجودہ صورتحال کو اس پارٹی کیلئے اخلاقی شکست قرار دیا ہے۔ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ بری طرح بکھر گیا اور اپوزیشن پارٹیاں جو پس حوصلہ معلوم ہورہی تھیں، انھیں لگتا ہے دوبارہ امید کی کرن نظر آئی ہے۔

بی جے پی کی تشکیل بھارتیہ جن سنگھ کے عناصر نے 1980ء کے دہے میں گاندھیائی سوشلزم کی دہائی دیتے ہوئے عمل میں لائی تھی۔ جلد ہی اس نے راہ بدل دی اور رام مندر کا مسئلہ اُٹھایا۔ مندر سے متعلق سارے ایجی ٹیشن، رتھ یاترا وغیرہ فرقہ وارانہ تشدد اور سماج کو منتشر کرنے کے موجب بنے۔ اسی چیز نے بی جے پی کو جہت عطا کی جو اس کے بعد طاقت میں بڑھتی گئی۔ وہ زیادہ تر شناخت سے متعلق مسائل اٹھاتے رہی۔ اقتدار کا مزہ 1996ء میں تیرہ دن کیلئے اور پھر تیرہ ماہ کیلئے 1998ء میں چکھنے کے بعد اس نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) تشکیل دیا جس میں اقتدار کے بھوکے قائدین اقل ترین مشترک پروگرام کے لالچ کا شکار ہوکر شامل ہوگئے، جو صرف کاغذ پر رہا، جبکہ بی جے پی اپنا ہندوتوا ایجنڈہ آگے بڑھاتی رہی۔ ہندوتوا ایجنڈہ یونیفارم سیول کوڈ کے مطالبہ، آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور رام مندر کی تعمیر پر مشتمل ہے۔ بی جے پی کی بڑی طاقت ابھی تک آر ایس ایس والنٹیرس کی ٹھوس مدد رہی ہے، جو ہندو راشٹرا کے نظریہ میں تربیت پائے ہیں اور سیاسی اقتدار کو اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کیلئے ایک اور وسیلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گجرات قتل عام کے بعد بی جے پی کیلئے ایک اور ٹھوس مدد کارپوریٹ سیکٹر سے اُبھر آئی۔
گجرات قتل عام کے بعد مودی نے کارپوریٹ شعبے کی حوصلہ افزائی کی، انھیں وکاس (ترقی) کے نام پر تمام سہولیات دیئے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو میڈیا کے بڑے گوشے پر مکمل کنٹرول بھی حاصل ہوا۔ بی جے پی کی طاقت بڑھانے والا تیسرا پہلو جن لوک پال بل کو اس کی تیزفہم حمایت رہی۔ انا ہزارے کو بڑھاوا دیتے ہوئے اور کرپشن کے خلاف عوامی احساسات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کانگریس کو آخری حد تک بدنام کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ کانگریس کو مزید بدنام کرنے کیلئے نربھئے کیس کے استعمال نے زبردست انتخابی فائدے دلائے۔ ساتھ ہی بی جے پی اپنی انتخابی مشینری کو اچھی طرح تیار کرلیا اور اب وہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔

مودی کے 15 لاکھ روپئے، کروڑہا نوکریاں، قیمتیں گھٹانے کے وعدوں کی چالاکی سے تشہیر کی گئی، اور مودی نے 2014ء کا الیکشن 31% ووٹ تناسب کے ساتھ جیت لیا۔ مخالف حکمرانی عنصر، بدعنوانی، آر ایس ایس کی مدد اور کارپوریٹ کی طرف سے فنڈ کی فراہمی نے اسے 2014ء کے انتخابات میں آسانی سے جیت دلائی۔ اس مدت کے دوران وہ وعدے پورے کرنے کی کوئی کوششیں نہیں ہوئیں۔ بی جے پی گائے بیف مسئلہ کے ذریعے انتشار کو ہوا دیتی رہی۔ ضمنی مسائل جیسے لوو جہاد، گھر واپسی بی جے پی کی انتخابی پوزیشن کو مضبوط کرتے رہے، کیونکہ وہ مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی ہندوؤں کیلئے خطرے کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔جذباتی مسائل پر واپسی کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنی نوعیت کی قوم پرستی کو اُجاگر کیا ہے۔ بی جے پی قوم پرستی کا مطلب پاکستان کے خلاف جنونی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ اس کی قوم پرستی ظاہر طور پر سماج کے بعض گوشوں میں کامیاب ہورہی ہے۔ 2019ء کے انتخابات میں یہ تمام عوامل نے اپنا رول ادا کیا۔ اس میں اضافے کے طور پر پلوامہ۔ بالاکوٹ اور ای وی ایم مشینیں ایسا لگتا ہے کہ بگڑتے معاشی ماحول کے باوجود بی جے پی کی فتح میں مدد کئے۔ اور اس سے ایسا تاثر ملا کہ جذباتی و انتشار پسندانہ مسائل کو استعمال کرنے میں ماہر پارٹی قوم پرستی کو ایک اور جذباتی مسئلہ میں تبدیل کررہی ہے اور اس سے دائمی فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔پھر مہاراشٹرا۔ ہریانہ انتخابات میں مودی۔ شاہ جوڑی نے کیا غلط کیا؟ کیا لوگ زندہ رہنے کیلئے جذبات اور قوم پرستی کھاتے رہیں گے؟ روٹی، روزگار کے مسائل اُبھر رہے ہیں اور اب قوم پرستی یا فرقہ وارایت کے بارے میں پیدا کردہ جنونی کیفیت کے ذریعے دبائے نہیں رکھے جاسکتے ہیں۔ ان انتخابات میں ای وی ایم مشینوں کے رول سے قطع نظر سیکھنے کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ سب سے طاقتور انتخابی مشین تک سماج کی بنیادی ضرورتوں سے متعلق مسائل پر بگاڑی نہیں جاسکتی ہے۔ یہ بھی سبق ہے کہ بھوک آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی شیخی یا تین طلاق پر اپنی پیٹھ ٹھونکنے یا پاکستان کا خوف پیدا کرتے ہوئے بجھائی نہیں جاسکتی ہے۔

یوں تو آر ایس ایس ہماری سماجی زندگی، تعلیم، ذرائع ابلاغ، سماجی کام کے زیادہ تر گوشوں میں گھس گیا ہے، لیکن بی جے پی۔ آر ایس ایس ایجنڈہ بھوکے پیٹوں کو بھر نہیں سکتا یا نوجوانوں کو روزگار نہیں دے سکتا یا کسانوں کی خودکشی کو روک نہیں سکتا ہے۔ یقینا دو ریاستوں کے اس الیکشن سے سکیولر اقدار اور اُس ایجنڈے کو تقویت حاصل ہوگی جو غذا، روزگار، صحت اور گزربسر کے حق کی باتیں کرتا ہے اور یہ اُبھر آئیں گے۔کیا عوام کے مسائل کے تئیں پابند عہد اپوزیشن پارٹیاں ڈٹ کر متحدہ قوت کے طور پر آگے بڑھ سکتی ہے تاکہ نیشنل ایجنڈہ کو واپس ہندوستانی دستور کی پٹری پر ڈالا جاسکے؟ کیا سماجی تحریکات یہاں سے زور پکڑسکتی ہیں اور عوام کے مسائل کو زیادہ جو ش و جذبہ کے ساتھ آگے بڑھا سکتی ہیں؟ فرقہ وارانہ ایجنڈہ اور قوم پرستانہ ایجنڈہ کی حدیں آشکار ہوگئی ہیں، اب معاملہ اُن کے پاس ہے جو تکثیریت، تنوع اور انسانیت پر ایقان رکھتے ہیں تاکہ عوام کے مسائل کو دوبارہ اُبھارا جائے اور نفرت اور تفرقہ کا ازالہ کیا جائے جو سماجی زندگی میں بھردیئے گئے ہیں۔٭
ram.puniyani@gmail.com