بے مثال فائنل میں انگلینڈ فاتح نیوزی لینڈ نے دِل جیتے

   

عرفان جابری
آئی سی سی ورلڈ کپ 2019ء سنسنی خیز، دم بخود کردینے والے تاریخی فائنل کے سبب دنیائے کرکٹ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا، اسے اب تک سفید گیند کا بہترین مقابلہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا، اور ایسا میچ شاید ہی دوبارہ ہوگا!
اتوار 14 جولائی … تاریخی گراونڈ لارڈز … ورلڈ کپ فائنل … ریگولر میچ ’ٹائی‘ … سوپر اوور ’ٹائی‘ … نیوزی لینڈ کے مقابل انگلینڈ باونڈریوں (چوکے اور چھکے) کی جملہ گنتی پر نیا ورلڈ چمپئن بن گیا!
ٹورنمنٹ کی شروعات سے قبل عام و خاص تاثر یہی تھا کہ میزبان انگلینڈ اِس مرتبہ بہت طاقتور اور خطاب کی مضبوط دعوے دار ٹیم ہے۔ اس تاثر کا پس منظر اوئن مورگن زیرقیادت انگلش ٹیم کا گزشتہ ورلڈ کپ کے بعد سے مسلسل محنت کرنا، اپنے کھیل میں عصری تبدیلی لانا، اور جارحانہ روش اختیار کرتے ہوئے آئی سی سی کا ٹاپ رینک حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ انگلینڈ فائنل میں پہنچ گیا تو تعجب نہ ہوا۔ عالمی خطاب کیلئے دیگر مضبوط دعوے داروں میں آسٹریلیا اور انڈیا سب سے آگے تھے۔ نیوزی لینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ ’ڈارک ہارس‘ (بہ معنی غیرمتوقع) سمجھے گئے۔ ان تینوں میں جنوبی افریقہ اور پاکستان نے ٹاپ 4 میں رسائی کے شایان شان مظاہرہ نہیں کیا، اس لئے ایونٹ سے جلد ہی خارج ہوگئے۔ تاہم، نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں ویراٹ کوہلی کی کپتانی والی ٹیم انڈیا کو شکست دے کر دنیائے کرکٹ میں نیا چمپئن نمودار ہونے کی امید بڑھا دی، جس کے دوسرے ہی روز میزبانوں نے آرن فنچ زیرقیادت آسٹریلیا کو شکست فاش کے ذریعے ٹورنمنٹ سے باہر کیا اور اِس مرتبہ نیا چمپئن بننا طے کردیا کیونکہ فائنل میں پہنچی دونوں ٹیموں نے 44 سالہ مینس ونڈے انٹرنیشنل کرکٹ کامپٹیشن میں عالمی خطاب نہیں جیتا تھا۔
فائنل میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کی طاقتور اور گہری بیٹنگ لائن اپ کے سامنے 242 کا اوسط ٹارگٹ مقرر کیا۔ آخری اوور میں جیت کیلئے 15 رنز کا ٹارگٹ لیکن میچ ’ٹائی‘ ۔ سوپر اوور … انگلینڈ کی طرف سے بین اسٹوکس اور جوس بٹلر کی جارحانہ جوڑی دوبارہ میدان پر بیٹنگ کیلئے آئی اور دونوں نے 15 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے جمی نیشم اور مارٹن گپٹل سنسنی خیز حالات میں 16 کے ٹارگٹ پر 15 رنز ہی بناسکے۔ پھر ایک بار 15 کا عدد سامنے آیا اور میچ دوبارہ ’ٹائی‘ ! اب ونر کو طے کرنے مجبوراً میچ کی مجموعی باؤنڈریوں کی گنتی کو کسوٹی بنانا پڑا۔ اس معاملے میں انگلینڈ ریگولر میچ میں 24 باؤنڈریوں (چوکا ہو کہ چھکا … باونڈری شمار ہوتی ہے) کے ساتھ نیوزی لینڈ (17) کو کافی پیچھے چھوڑ گیا۔ آخرکار ان باونڈریوں کی گنتی پر انگلینڈ کو نیا ورلڈ چمپئن قرار دیا گیا اور کین ولیمسن کی کپتانی میں عمدہ کھیلنے والے کیویز نے رنرزاَپ پر اکتفا کیا مگر شائقین کرکٹ کے دِل جیت لئے۔ انعامی رقم میں انگلینڈ کو 4 ملین امریکی ڈالر (تقریباً 28 کروڑ روپئے) اور نیوزی لینڈ کو 2 ملین ڈالر حاصل ہوئے۔

جس کسی شائق کرکٹ نے پورا میچ کا مشاہدہ کیا، اُس نے اپنی زندگی میں ایسا ورلڈ کپ فائنل نہیں دیکھا ہوگا، کیونکہ اس سے قبل کسی ورلڈ کپ فائنل کا اقل ترین فرق سے فیصلہ چوتھے عالمی ٹورنمنٹ منعقدہ ہندوستان و پاکستان میں ہوا تھا جب ایلن بارڈر کی کپتانی میں آسٹریلیائی ٹیم نے مائیک گیٹنگ زیرقیادت انگلینڈ کو 7 رنز سے ہرایا تھا۔ اُس فائنل کے سواء بقیہ دس فائنل میچز کبھی اتنے سخت اور قریبی معاملہ ثابت نہیں ہوئے تھے۔ جانے کتنے شائقین کرکٹ اور نہ جانے کتنے انگلش اور کیوی پرستاروں کے دل بیٹھتے اور اُچھلتے رہے ہوں گے!

میری رائے میں مجموعی طور پر بہتر ٹیم کو عالمی خطاب حاصل ہوا اور دنیائے کرکٹ کو نیا چمپئن ملا۔ ویسے کوئی بھی جیتو، نیا چمپئن ملنا تو طے تھا۔ تاہم، میں نہ صرف پورے ٹورنمنٹ کے تناظر میں رائے قائم کررہا ہوں بلکہ گزشتہ ورلڈ کپ (2015) منعقدہ آسٹریلیا سے اخراج کے بعد مورگن کی قیادت میں انگلش ٹیم نے جس طرح محنت کی اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا ٹاپ رینک حاصل کیا، وہ بہت تعریف کے قابل پیشرفت ہے۔ اس مدت سے پہلے تک انگلینڈ لمیٹیڈ اوورز کرکٹ میں بھی کچھ روایتی کرکٹ اور روایتی ٹیم سلیکشن کا عادی تھا۔ گزشتہ چند سال میں انھوں نے اپنی روش یکسر بدل دی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسٹریلیا اور انڈیا جیسی دیگر دو سب سے طاقتور ٹیموں کے لیے چیلنج بن گیا۔
بارہواں ورلڈ کپ مجموعی طور پر بہت اچھا رہا اور مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ تھوڑی کسر بارش کے سبب رہ گئی کیونکہ ایک دو نہیں، چار مقابلے بارش کی نذر ہوئے اور متعلقہ دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔ ان میں خاص طور پر ایک میچ جو پاکستان اور سری لنکا کے درمیان نہ ہوسکا، اُس کا پاکستانیوں کو بڑا تاسف ہے۔ اگر کوئی بھی میچ بارش کی نذر نہ ہوتا تو کسی کو کچھ بہانہ بنانے کا موقع نہ ملتا۔ اسی طرح پہلے سیمی فائنل میں بھی بارش نے اثر ڈالا۔ ہندوستان نے نیوزی لینڈ کی پریشانیوں سے دوچار اننگز کو لگ بھگ ختم کرکے اوسط ٹارگٹ کے تعاقب کا سوچا ہی تھا کہ بارش نے کھیل بگاڑ دیا۔ ’ریزرو ڈے‘ یعنی اگلے دن کھیل وہیں سے آگے بڑھایا گیا اور ویراٹ زیرقیادت ٹیم کو 240 کا اوسط ٹارگٹ ملا۔ تاہم، انھیں پہلے دن دوپہر بعد بیٹنگ کرنے کا فائدہ نہ مل سکا، بلکہ دوسرے دن صبح کے ابرآلود موسم میں کھیلنا پڑا۔ پھر درمیان میں بہت کچھ ہوا لیکن آخرکار نیوزی لینڈ نے متواتر دوسری بار فائنل میں رسائی حاصل کرلی۔

میں سمجھتا ہوں، یہ ٹورنمنٹ اس لحاظ سے بھی موجودہ طور پر عالمی منظر کی بہت درست عکاسی کرتا ہے کہ 10 کے منجملہ حقیقی طور پر مستحق 4 ٹیمیں سیمی فائنلز میں پہنچیں۔ انگلینڈ اپنے شاندار ماضی قریب اور ٹورنمنٹ میں عمدہ کارکردگی کے پیش نظر فائنل کھیلنے کا مستحق تھا۔ آسٹریلیا اور ہندوستان بھلے ہی مجموعی اعتبار سے نیوزی لینڈ سے بہتر ہیں لیکن ولیمسن کی کپتانی میں کیویز نے دستیاب حالات کا عمدگی سے فائدہ اٹھایا، اسی لئے وہ عالمی خطاب کا دعوے دار ہوا۔ مگر میں دوبارہ اسی کسوٹی کو دہراؤں گا کہ آخرکار مجموعی طور پر بہتر انگلینڈ نیا ورلڈ چمپئن بنا۔ اس کے ساتھ نئے رجحان کی ہیٹ ٹرک ہوگئی۔ ابتدائی 9 ٹورنمنٹس تک کبھی میزبان (یا مشترکہ میزبان) نے اپنی سرزمین پر فائنل نہیں جیتا تھا۔ 2011ء میں مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں انڈیا نے روایت توڑی۔ پھر مائیکل کلارک زیرقیادت آسٹریلیا نے 2015ء کا ورلڈ کپ وطن میں جیتا۔ اب انگلینڈ نے نئے رجحان کی ہیٹ ٹرک کی ہے!
ٹورنمنٹ کی بقیہ چھ ٹیموں میں تین کا نام آچکا اور دیگر تین ٹیمیں سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان ہیں۔ ان تمام چھ کی کارکردگی کا مختصرا جائزہ یوں ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا ٹورنمنٹ میں پستی سے اُبھرنے کی کامیاب کوشش کرتے رہے۔ سرفراز احمد زیرقیادت پاکستانی ٹیم کو اپنے پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست فاش کا جو بھاری نقصان ہوا، اُسے وہ اپنے آخری لیگ میچ تک دور نہ کرسکی حالانکہ پاکستان اور نیوزی لینڈ دونوں نے مساوی پانچ، پانچ لیگ میچز جیتے۔ بہت پہلے سے طے شدہ قواعد کے مطابق ایسی صورت میں برتر ٹیم کا فیصلہ ’نٹ رن ریٹ‘ (NRR) کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس طرح نیوزی لینڈ سیمی فائنلز کی چوتھی ٹیم بنا اور پاکستان پانچویں مقام پر ہاتھ ملتے رہ گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی نیشنل ٹیم کے اگلے سلیکشن کے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ورلڈ کپ کی 10 ٹیموں میں سرفراز کی کپتانی اور اُن کا انفرادی مظاہرہ تمام کپتانوں سے خراب رہا۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کہانی پاکستان کے مقابل اتنی مختلف ہے کہ وہ شروع سے آخر تک ہارتے اور جیتتے رہے، عدم استقلال کے سبب اگلے مرحلے تک نہیں پہنچ پائے۔ تاہم، آل راؤنڈر شکیب الحسن کیلئے یہ یادگار ایونٹ ثابت ہوا۔ فاف ڈوپلیسی کی قیادت میں جنوبی افریقہ سے ایسی توقع ہرگز نہ تھی جس طرح اُس کا مجموعی مظاہرہ رہا۔ ابتداء میں ہی لگاتار تین ناکامیوں نے اُس کی مہم بے سمت کردی۔ ٹورنمنٹ کی نویں اور دسویں ٹیم ویسٹ انڈیز اور افغانستان ہیں۔ کرس گیل جیسے اسٹار کھلاڑی کی موجودگی کے باوجود ویسٹ انڈیز نے صرف دو جیت درج کرائے جبکہ متواتر دوسرا ورلڈ کپ کھیلنے والا افغانستان تمام 9 میچز ہارا۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com