سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا کے حصص {شیرز} خریدنا چاہتا ہے جنکی قیمت بڑھتی گھٹتی رہتی ہے یعنی تجارتی کاروبار میں نفع نقصان کے سبب کبھی شیرز کی رقم سے بڑھ کر منافعہ ملتا ہے۔ نقصان کی صورت میں اصل رقم بھی گھٹ جاتی ہے اور خریدار حصص کو نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔ ہرسال منافعہ خریدار کو نقد ادا کیا جاتا ہے اور اگر خریدار حصص خواہش کرے تو اس کو حصہ میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ یہ سرکاری ادارہ ہے۔
ایسی صورت میں ان شیرز کی خریدی شرعاً جائز ہوگی یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : ایک یا کئی افراد کی رقم اور دوسرے شخص کی محنت سے تجارت کی جاتی ہے اورنفع و نقصان میں سب برابر کے شریک رہتے ہیں تو شرعاً اس کو ’’مضاربت‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی تجارت کے لئے رقم لگانے میں شرعاً کوئی امر مانع نہیں ہے۔ المضاربۃ فی عقد شرکۃ فی الربح بمال من أحد و عمل من آخر۔ شرح وقایہ جلد ۳
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
جنت میں داخلے کا عمل
٭ حضرت ابو ایوب انصاری ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ، مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہو سکوں۔ لوگوں نے کہا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ کیوں اس طرح بات کر رہا ہے؟ اس پر نبی ﷺ سے نے فرمایا: کچھ نہیں ہوا۔ (اسے مجھ سے کام ہے۔اسے کہنے دو)۔ پھر آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: اللہ کی عبادت کر، اس میں شرک نہ کر ، نماز قائم کر، زکوۃ ادا کر اور رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک کر۔ اب نکیل چھوڑ دے۔ (ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت آپ ﷺ سواری پر تھے)۔
٭ حضرت ابی بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ (کی ذات و صفاتِ میں)، کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ ﷺ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ ﷺ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ ﷺ خاموش ہوجاتے (یعنی ہم پر ان گناہوں کی ہیبت طاری ہو گئی)۔(بخاری،مسلم)
٭ طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، سر پریشان (یعنی بال بکھرے ہوئے تھے)، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے)؛ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں مگر تو نفل روزے رکھے (تو اور بات ہے)۔ طلحہ نے کہا اور نبی کریم ﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ (زکوٰۃ) مجھ پر نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے (تو اور بات ہے)۔ راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور یوں کہتا جاتا تھا، قسم اللہ کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر یہ (اپنے عمل میں) سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔(بخاری،مسلم)