تجھے غرور کہ تیری یہاں حکومت ہے

   

ہندوتوا … سلمان خورشید پر چراغ پا کیوں؟
دیش بھکتی اور دیش دروہی … سنگھ پریوار یونیورسٹی کی ڈگری

رشیدالدین
بی جے پی اور سنگھ پریوار سلمان خورشید پر چراغ پا کیوں ہیں؟ آخر کانگریس کے قائد نے ایسی کیا بات کہہ دی کہ جو ہضم نہیں ہوپارہی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ بی جے پی کیلئے کانگریس قائدین کی ہر بات کی مخالفت کرنا فطری ہے اور پھر اگر کوئی مسلم قائد ہندوتوا کو نشانہ بنائے تو ظاہر ہے کہ اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ سلمان خورشید نے ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ایک قانون داں کی حیثیت سے تجزیہ کرتے ہوئے کتاب تحریر کی ہے ۔ رام مندر تحریک کے نام پر جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان خورشید نے ہندوتوا کے نام پر منافرت پھیلانے کی مذمت کی ۔ انہوں نے ایسے عناصر کا تقابل دہشت گرد تنظیموں اسلامک اسٹیٹ (IS) اور بوکو حرام سے کیا ۔ کتاب کی رسم اجراء سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم اور سابق چیف منسٹر ڈگ وجئے سنگھ کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ سلمان خورشید نے ہندو ازم اور ہندوتوا میں فرق بیان کرتے ہوئے موجودہ حالات میں ہندوتوا طاقتوں کی سرگرمیوں کو دہشت گرد کارروائیوں کی طرح قرار دیا۔ بابری مسجد مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں سلمان خورشید کے خیالات علحدہ بحث کا موضوع ہیں لیکن ہندوتوا کے نام پر جاری ظلم و زیادتی کا تذکرہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اس قدر گراں گزرا کہ ان کے خلاف مقدمات عائد کئے گئے ۔ دستور میں اظہار خیال کی آزادی ہے لیکن کسی مخصوص مذہب کے جذبات کو مجروح نہیں کیا جاسکتا۔ سلمان خورشید جو ایک جہاندیدہ شخصیت کے علاوہ ایک نامور قانون داں ہیں ، وہ ہندو ازم اور ہندوتوا میں فرق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہندو مت یا ہندو ازم ایک خاص مذہب کا نام ہے جبکہ ہندوتوا کا نظریہ شدت پسندی کی علامت ہے۔ یہ نظریہ حال کی پیداوار ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اثر میں اضافہ اور ملک میں اقتدار کے حصول کے بعد ہندو راشٹر کے خواب نے شدت پسندی کے رجحانات کو ہوا دی ہے ۔ سلمان خورشید نے ہندوتوا کا جن تنظیموں سے تقابل کیا ، اس پر بحث میں گئے بغیر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ رام مندر تحریک کے آغاز کے بعد جارحانہ فرقہ پرست تنظیموں کو فروغ حاصل ہوا اور مختلف ناموں سے نئی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ عوام میں مذہبی منافرت کا بیج بونے کا ٹوکرا ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی ، اشوک سنگھل اور ان کے ہم نواؤں کے سر جاتا ہے ۔ سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا آغاز رام مندر تحریک سے ہوا جس کے بعد مسلمانوں پر نت نئے الزامات کے تحت مظالم کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہیں۔ اتنا ہی نہیں شریعت میں بھی مداخلت کی گئی ۔ سلمان خورشید پر مقدمہ درج کرنے والوں کا اعتراض ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ کیا ہندوستان میں صرف اکثریتی طبقہ کے جذبات کا احترام ہونا چاہئے ؟ جبکہ دستور نے تمام مذاہب کو یکساں طور پر اہمیت دی ہے۔ جب مذہبی جذبات مجروح کرنا ہی مقدمہ کی بنیاد ہے تو سنگھ پریوار کے ان نام نہاد سادھو اور سادھویوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جو آئے دن اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔ بی جے پی قائدین کو سلمان خورشید سے پہلے اپنے اس پالتو کتے ملعون وسیم رضوی کو دیکھنا چاہئے جس نے بے ادبی کی تمام حدود سے تجاوز کردیا ہے اور جو شریعت کے اعتبار سے واجب القتل ہے۔ حرامی ا لنسل اور نطفہ ناتحقیق عناصر کو ساتھ بٹھاکر اسلام کے خلاف زہر افشانی کرانے پر بی جے پی اورمرکزی حکومت کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ مطلب یہی ہوا کہ جذبات صرف اکثریتی طبقہ کے ہوتے ہیں، دوسروں کے جذبات تو مجروح ہونے کے لئے ہیں۔ افسوس کہ بی جے پی میں مسلم چہرہ کا دعویٰ کرنے والے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ منافرت کی سیاست اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا جرم نہیں رہا اور مسلمانوں سے اگر کوئی ہمدردی کا بھی اظہار کردے تو اس کے خلاف مقدمات دائر کئے جاتے ہیں ۔ تریپورہ میں مسلمانوں پر مظالم کا جائزہ لینے والے سپریم کورٹ کے وکلاء کے خلاف محض اس لئے مقدمات درج کئے گئے کیونکہ انہوں نے مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حقیقی صورتحال کی ترجمانی کی تھی ۔ بی جے پی ، سنگھ پریوار اور مرکزی حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے کبھی مقدمات تو کبھی انکم ٹیکس اور ای ڈی دھاوؤں کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ ہندوستان کو جمہوریت سے آمریت اور شاہی میں تبدیل کردیا گیا ، جہاں مخالف رائے کی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت خود اگر عدم برداشت کا شکار ہوجائے تو دستور اور قانون کی بالادستی کے بجائے ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔ سیاہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو گاڑی سے روند دیا گیا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج پر جہد کاروں اور طلبہ قائدین کو سنگین الزامات کے تحت کئی ماہ سے جیلوں میں محروس رکھا گیا۔ عوام کی آخری امید اب عدلیہ ہے جو بڑی حد تک آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ ہندوتوا نظریہ کی مخالفت پر برہم ہونے والے عناصر کیا اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ملک میں جتنے بھی فسادات ہوئے ان میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا ہاتھ تھا ، جنہیں عرف عام میں ہندوتوا کہا جاتا ہے۔ ان تنظیموں کے دہشت گرد تنظیموں سے تقابل کے قطع نظر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ظلم تو آخر ظلم ہے چاہے کوئی کرے۔ اندرون ملک ہو یا پھر دیگر ممالک میں اس کی ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی۔ ظلم کا انداز الگ ہوسکتا ہے لیکن ظالم کے نام بھی الگ الگ ہیں۔
ہندوتوا کو دہشت گردی سے جوڑنے والے پہلے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے پر معذرت خواہی کریں ۔ سنگھ پریوار کی جانب سے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ اب تو ہندوستان کے مسلمانوں کو طالبانی کہہ کر پکارا جارہا ہے ۔ ان عناصر کو اس وقت مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیوں نہیں آیا جب اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرتے ہوئے اسلامک دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور گودی میڈیا کے ذریعہ اسے عوام کے ذہنوں میں پیوست کیا گیا ۔ ہندوستان میں ہندوتوا دہشت گردی کا آغاز گاندھی جی کے قتل سے شروع ہوا تھا۔ خود کو دیش بھکت ظاہر کرنے والے جدوجہد آزادی میں انگریزوں کے جاسوس رہے۔ یہ وہی آر ایس ایس ہے جس نے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کی تھی لیکن آج انگریزوں سے معافی مانگنے والے ساورکر کو قومی رہنما کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ اگر کسی تنظیم نے اپنا نام مسلم یا اسلام سے جوڑلیا ہے تو اسے اسلامی دہشت گردی قرار دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اڈوانی نے پاکستان جاکر جناح کو خراج پیش کرتے ہوئے انہیں سیکولر قرار دیا تھا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اڈوانی کو دیش دروہی قرار نہیں دیا لیکن اگر کوئی مسلمان جناح کا نام بھی لیں تو اسے پاکستانی کہا جاتا ہے۔ ملک میں دینی ادارے ، جماعتیں اور دینی مدارس کے علماء کو بھی بخشا نہیں گیا ، ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کئے گئے ۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے خلاف تازہ واقعہ الطاف نوجوان کا ہے جس کی موت پولیس کی اذیت کے نتیجہ میں ہوئی ہے لیکن اسے خودکشی قرار دیا جارہا ہے ۔ بات جب دیش بھکتی اور دیش دروہی کی چل پڑی ہے تو کنگنا رناوت کے اس بیان پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کیا کہے گی جس میں انہوں نے 1947 ء کی آزادی کو ’’بھیک‘‘ اور 2014 ء کو حقیقی آزادی قرار دیا ہے۔ مرکز کی جانب سے پدم شری کا اعزاز ملتے ہی کنگنا نے یہ بیان دیا ۔ ایسا محسوس ہوا جیسے پدم شری اعزاز کا احسان چکانے کی کوشش کی گئی یا پھر اسی بیان کے لئے اعزاز دیا گیا ہو۔ جدوجہد آزادی اور مجاہدین آزادی کی توہین پر وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قائدین کی خاموشی باعث حیرت ہے۔ حالانکہ کنگنا رناوت کا یہ بیان ملک دشمنی کے تحت مقدمہ کے لئے فٹ کیس ہے۔ سنگھ پریوار کی اس بیان پر خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جدوجہد آزادی میں ان کا کوئی رول نہیں۔ سنگھ پریوار کا کوئی قائد ساورکر کو مجاہدین آزادی کہہ رہا ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ جدوجہد آزادی میں گاندھی جی کا کوئی رول نہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ملک کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے گاندھی جی کی جگہ نریندر مودی کو مجاہد آزادی کے طورپر پیش کیا جائے گا ۔ دیش دروہی کا پیمانہ دراصل مودی کی مخالفت ہے۔ دیش بھکت یا دیش دروہی کی ڈگری دراصل سنگھ پریوار یونیورسٹی سے جاری کی جارہی ہے۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
تجھے غرور کہ تیری یہاں حکومت ہے
مجھے بھی ضد کہ اسی شہر میں رہنا ہے