ترکیہ کے صدارتی انتخاباتصدرجب طیب اردوان کیلئے آسان نہیں

   

ابو معوذ
ترکیہ میں 14 مئی کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں ( 14 مئی 2023 کو پہلے راؤنڈ کی رائے دہی ہوگی اور اگر ضرورت ہو تو پھر 28 مئی 2023 کو دوسرے مرحلہ کی رائے دہی کرائی جائے گی ) ان انتخابات میں موجودہ صدر رجب طیب اردوان اور دوسرے تین صدارتی امیدواروں کا فیصلہ ہوگا جن میں کمال قلیچ داراوغلو بھی شامل ہیں وہ سی ایچ پی قومی اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہیں اور انہیں رجب طیب اردوان کے خلاف کامیابی کی اُمید ہے یہ اتحاد 6 سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو چاہتی ہیں کہ رجب طیب اردوان کے 21 سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوجائے حالانکہ اردوان نے اپنے 21 سالہ دور اقتدار میں ترکی کو کئی محاذوں پر کامیابی دلائی اور خاص طور پر مغربی سامراج کے اشاروں پر ناچنے سے محفوظ رکھا ۔ ہم نے آپ کو سطور بالا میں رجب طیب اردوان کے مخالف امیدواروں کی تعداد کے بارے میں بتایا ہے جن میں کمال قلیچ داراوغلو سرفہرست ہیں ایک اور اہم امیدوار ہوم لینڈ پارٹی کے محرم انسے ہیں چوتھے اہم امیدوار ڈاکٹر سنان اردواں نے جو ایک طرح سے آزاد امیدوار کے طور پر مقابلہ کررہے ہیں جہاں تک محرم انسے کا تعلق ہے۔ وہ فزکس ٹیچر اور اسکول پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ انہوں نے ہوم لینڈ پارٹی قائم کی ہے اور مئی 2021 سے سیاسی شعبہ میں سرگرم ہیں وہ ریپبلکن پیپلز پارٹی کے اپنے آبائی مقام Yalova سے ایم پی رہے اس کے علاوہ انہوں نے اپنی سابقہ پارٹی RPR یا CHP کے نائب صدر بھی رہے وہ CHP کے صدر کیلئے کمال قلیچ داراوغلو کیلئے دو مرتبہ مقابلہ بھی کرچکے ہیں وہ اپوزیشن کی مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 69 سالہ رجب طیب اردوان کا اصل مقابلہ کمال قلیج داراوغلو سے ہے اور حالیہ عرصہ جو بھی اوپنین پول کے نتائج آئے ہیں ان میں یہی بتایا گیا ہیکہ ان دونوں کے درمیان ٹکر کا مقابلہ ہے آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ترکیہ کے دستور کے مطابق کوئی بھی صدارتی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو دوسرے مرحلہ کی رائے دہی کروائی جاتی ہے یعنی 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ہی کامیاب قرار دیا جاتا ہے تاہم جو بھی سروے کئے جارہے ہیں ان میں ایسا لگتا ہے دونوں امیدوار مقررہ 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے موقف میں نہیں دکھائی دیتے ۔ ان دونوں امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب 42 فیصد اور 43 فیصد کے قریب بتایا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ 14 مئی کو صدارتی انتخابات کے ساتھ ترکیہ پارلیمنٹ کی 600 نشستوں کیلئے بھی رائے دہی ہوگی فی الوقت انتخابی مہم میں شدت پیدا ہوگئی ہے جبکہ بیرونی ملکوں میں مقیم 33 لاکھ ترک شہریوں کیلئے متعلقہ ملکوں میں حق رائے دہی کے استعمال کا آغاز ہوچکا ہے وہ 9 مئی تک اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ جرمنی میں دیڑھ لاکھ ترک شہری مقیم ہیں جبکہ فرانس ، نیدرلینڈ اور بلیجم میں بھی ترک شہریوں کی کثیر تعداد مقیم ہے ۔ اگرچہ انتخابی مہم میں شدت پیدا ہوگئی ہے لیکن 2018 کے صدارتی انتخابات کی طرح ان میں رنگارنگی نہیں دیکھی گئی ، رقص و موسیقی سے بھی گریز کیا گیا ہاں عوام بالخصوص نوجوانوں کو راغب کرنے کی خاطر ان میں ملک کی مقبول مٹھائیوں اور مشروبات کی تقسیم عمل میں لائی جارہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ چار صدارتی امیدواروں میں کون کامیاب ہوتا ہے ؟ کون کس کی کامیابی کا باعث بنتا ہے ؟ 27 مارچ کو ترکیہ کی انتخابی اتھاریٹی یعنی سپریم الیکٹورل کونسل نے مذکورہ چار امیدواروں کی نامزدگی کو قبول کیا ساتھ ہی اس کی تصدیق کی کہ 600 پارلیمانی نشستوں کیلئے 36 جماعتیں انتخابات لڑنے کی اہل ہیں ۔ حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) ہوم لینڈ پارٹی کے امیدوار بالترتیب رجب طیب اردوان ، کمال قلیچ داراوغلو ، محرم انسے اور آزاد امیدوار سپنان اووان کے درمیان مقابلہ ہے ۔ مسٹر سپنان کونسل پرست جماعتوں کے آبائی اتحاد کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ مسٹر محرم بھی سی ایچ پی کے رکن تھے اور 2018 کے صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردوان کے مقابل میں اترے تھے انہوں نے سی ایچ پی کو خیرباد کہکر ہوم لینڈ پارٹی قائم کرلی ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اپوزیشن ووٹوںکی تقسیم کا باعث بنیں گے جس کا راست فائدہ اردوان کو ہوگا اگر دیکھا جائے تو جملہ رائے دہندوں میں جن کی تعداد کئی کروڑ ہے ان میں 15 فیصد رائے دہندے نوجوان ہیں ان میں نئے ووٹر سے یعنی نئے نوجوان رائے دہندوں کی تعداد 50 لاکھ ہے یہ کسی بھی امیدوار کی کامیابی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ رجب طیب اردوان کیلئے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ماضی کی طرح آسان نہیں ہے ایک تو حالیہ عرصہ کے دوران آئے زلزلے میں 50 لاکھ سے زائد ترک باشندے جاں بحق ہوئے ۔ اربوں ڈالرس مالیتی عمارتیں زمین دوز ہوئیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ان کی بازآبادی کاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کیلئے برسوں لگ جائیں گے دوسری طرف کرد سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکرسی پارٹی جسے ملک کی تیسری سب سے بڑی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ بھی اردوان کی مصیبتوں میں اضافہ کرسکتی ہے اس کی وجہ یہ ہیکہ اس نے اپنا صدارتی امیدوار میدان میں نہیں اُتارا بلکہ کمال قلیچ داراوغلوکی تائید و حمایت کا اعلان کیا ۔ پارلیمنٹ میں اس پارٹی کو 12 فیصد ووٹ حاصل ہے ۔ رجب طیب اردوان بھی کوئی عام سیاسی لیڈر نہیں ہیں جیسے ہی کردوں کی پیپلز ڈیموکریسی پارٹی نے کمال داراوغلو کی حمایت کا اعلان کیا طیب اردوان نے کردوں کی اسلام پسند HUDAPAR سے اتحاد کرلیا جس سے انہیں کچھ راحت ملی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ رجب طیب اردغان کی پارٹی کے زیرقیادت اتحاد میں شامل جماعتوں کی تعداد 4 سے بڑھ کر 8 ہوگئی ہے جبکہ سی ایچ پی کی قیادت والے اتحاد میں شامل جماعتوں کی تعداد 17 تک پہنچ گئی ہے جس طرح ہمارے ملک بھارت میں رائے دہندوں کو مختلف وعدوں کے ذریعہ ( جو انتخابی منشور میں کئے جاتے ہیں ) لبھایا جاتا ہے ترکیہ میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے ۔ رجب طیب اردوان اپنی اسلام پسندی اور امریکہ کے خلاف عوامی جذبات اُبھارتے ہوئے مختلف وعدے بھی کرتے جارہے ہیں انہوں نے گھریلو صارفین کیلئے مفت گیس کی فراہمی اور ایسے گھرانے جو ماہانہ 25 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرتے ہیں انہیں ایک سال تک مفت گیس کی فراہمی کا اعلان کیا ہے ۔ رجب طیب اردوان انتخابی مہم میں امریکہ پر یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ وہ ترکیہ کی سیاست میں مداخلت کررہا ہے اس معاملہ میں وہ امریکی سفیر کی ان کے حریف کمال قلیچ داراوغلو سے ملاقات کو بطور مثال پیش کررہے ہیں ۔ ان انتخابات کے بارے میں یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مسلکی اختلافات بھی ان انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں کیونکہ کمال قلیچ داراوغلو علوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔