ترکی۔یونان تنازعہ

   

ڈاکٹر عبدالقیوم
اسوسی ایٹ پروفیسر ‘مانو

زمین یا سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی آج زبردست اہمیت ہے‘ اسکے حصول کے لئے پڑوسی ممالک باہم دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ آج ترکی اور یونان انکی سرحدات سے لگے بحرہ روم کے پانی میں موجود قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر کے لئے نبردآزما ہیں۔ 2010 میں کئے گئے امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق مشرقی بحیرہ روم کے ترائی (Basin) میں پائے جانے والے قابل حصول تیل کی مقدار 1.7 بلین بیارل اور قدرتی گیس کی مقدار 122 ٹریلین کیوبک فیٹ تھی۔ جبکہ گذشتہ ہفتہ ترک صدر طیب اردگان نے حالیہ تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ بحرہ اسود کی تہوں میں موجودگیس کے ذخائر کی مقدار 320 بلین کیوبک مٹرک ٹن ہے جو نئی کھدائی کے بعد حاصل ہوئے اعدادوشمار ہیں۔ اتنے وسیع تیل اور قدرتی گیس کے وسائل کے لئے دو پڑوسی ممالک میں رسہ کشی ایک فطری امر ہے۔

یونان جزیرہ نما بلقان کے جنوب میں واقع برطانیہ عظمیٰ کے مساوی ملک ہے‘ جسکی سرحدات برآعظم یوروپ، ایشیاء اور آفریقہ سے ملتی ہیں۔ اسکے جنوب مغرب میں البانیہ شمال میں مقدونیہ وبلغاریہ اور شمال مشرق میں ترکی اور مشرق میں بحیرہ ایجین (Agean) سے لگا اس کا مرکزی علاقہ ہے۔ اس کا زمینی رقبہ 1160 کلو میٹر ہی ہے۔ جبکہ اسکی ساحلی پٹی دنیا کی گیارہویں طویل ترین 13,676کلو میٹر ہے، جس میں تقریباً ایک ہزار جزائر ہیں جن میں سے 227 ہی آباد ہیں۔ اسکا 80 فیصد رقبہ پہاڑیوں سے گھرا ہے۔ یہ ملک قدیم ترین یوروپی تہذیب کا گہوارہ ہے‘ چنانچہ یہاںUNESCOکے مطابق تہذیبی اہمیت کے حامل مقامات کی تعداد 18 ہے۔ اسکی آبادی تقریباً 11ملین اور آرتھوڈک عیسائی مذہب ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ چالیس ہزار یا 1.24فیصد ہے۔ 1830 میں یونان، سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ترکی کے ساتھ اسکے تعلقات اکثر کبھی سرد تو کبھی گرم رہے ہیں۔ 1897 سے 1922 تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی لڑائیاں لڑی گئیں۔ 1952ء میں دونوں ممالک ایک ساتھ امریکی فوجی بلاک ناٹو(Nato) کا حصہ بنے۔ اسکے باوجود1974 میں قبرص کے مسئلہ پر دونوں ممالک آمنے سامنے تھے۔ بالآخرشمالی قبرص ترک زیر کنٹرول علاقہ بن گیا۔ 1996 میں دونوں ممالک کے درمیان بحیرہ ایجین (Agean Sea) کے دو غیر آبادجزائر ImiaاورKardak جہاں صرف چند بکریاں رہتی ہیں پر ترکی نے اپنے اقتداراعلیٰ کو پیش کیا، تاہم یوروپ کے ممالک اور یوروپین یونین یونان کی تائید میں رہنے کی وجہ سے آج تک یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہیکہ ان دو جزائر کامجموعی رقبہ صرف 9.9ایکر ہی ہے۔ چنانچہ بل کلنٹن نے کہا تھا کہ ’’جب میرے مددگار یہ بتائے کہ ترکی اور یونان ان چٹانوں کے لیے لڑرہے ہیں جن پر چندبھیڑوں کے کوئی نہیں رہتا ہے تو میں سمجھتاتھا کہ میرے مددگار مذاق کررہے ہیں۔ جب میری بات فون پر دونوں ممالک کے قائدین سے ہوئی تو میں انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوا کہ ان چٹانوں کے لئے جنگ نہ کریں جن پر صرف بیس بھیڑیں رہتے ہیں‘‘۔ اس مسئلہ پر بین الاقوامی سطح پر کسی کو بھی کسی کی تائید نہ ملی۔ اکٹوبر2019میں امریکی سکریٹری خارجہ Mike Pompeoنے پہلے دورہ یونان کے موقع پر یہ واضح بیان دیا کہ ’’امریکہ یونان کے اقتداراعلیٰ کی تائید کرے گا‘‘۔

اگست 1999میں ترکی میں آئے تباہ کن زلزلے میں 35 ہزار لوگ مارے گئے اور نقصانات کا اندازہ 39 بلین ڈالر لگایا گیا تو یونان ترکی کے لئے امداد روانہ کرنے والا پہلا ملک تھا۔ اسی طرح ایک ماہ کے اندرجب ستمبر1999 میں یونان گذشتہ بیس برسوں میں آئے سب سے طاقتور ترین زلزلہ سے دہل گیا تو ترکی پہلا ملک تھا جس نے فوراًیونان کو طبی امداد بھیجا تھا۔ حتی کہ ترک شہری یونانیوں کے لئے خون کا عطیہ دینے تک کے لئے آگے آئے تھے۔ لیکن یہ دوستانہ جذبات تنائو میں بدل گئے جب 2016 میںآیا صوفیہ کو مسجد میں منتقل کرنے کو لے کر دونوں ممالک میں تنائو شروع ہوا۔ اس سال جولائی میں آیا صوفیہ کو مکمل مسجد کا درجہ دے کر اسے نمازیوں کے لئے کھول دیا گیا تو یونان نے ترک اعلیٰ قیادت کی مذمت کرتے ہوئے اسے یونیسکو کے اصولوں کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔ ترکی اوریونان کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شام اور لیبیا سے آنے والے مہاجرین کوپناہ دینے سے یونان کا انکار بھی ہے۔ گذشتہ سال کے انتخابات میںجیتنے والی قدامت پسند پارٹی کی حکومت نے آنے والے مہاجرین کے لئے اپنی سرحدات کو نہ صرف بند کردیا بلکہ مہاجرین کو پکڑ پکڑ کرسمندر میں ڈھکیل دینے یا انکی کشتیوں کے انجنوں کو ناکارہ بناتے ہوئے مہاجرین کو کشتیوں میں بٹھاکر سمندر میںچھوڑدینے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ترکی نے اس پر سخت اعتراض کیا، چونکہ یہ عمل بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ اعلان نامہ انسانی حقوق کی دفعہ 14کے مطابق ہرکسی کو اپنی جان بچانے کے لئے دوسرے ملک میں پناہ لینے کا حق ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونانی حکام نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اگست تک 1072 مہاجرین کو سمندر میں ڈھکیل دیا۔ نیو یارک ٹائمس14 اگست ،جوکہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصول Non- refoulementکے خلاف ہے جو یہ بتاتا ہیکہ مہاجرین کو قبول نہ کرتے ہوئے ان کے ملک کو واپس نہیں کیا جاسکتا ۔ جبکہ ترکی میں 3.7ملین شامی مہاجرین پناہ لئے ہیں۔ مارچ 2016 میں ترکی اور یوروپین یونین کے درمیان مہاجرین کے مسئلہ پر ایک معاہدہ ہوا جسکے مطابق یونان میں آنے والے شامی مہاجرین کو ترکی بھیجاجاسکتا ہے اور اس کے بدلے ترک شہریوں کو یوروپین یونین میں لیا جائے گا اور ترک شہریوں کے لئے ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اب جاری تنازعہ کا آغاز 21؍جولائی سے اس وقت ہوا جبکہ ترکی نے Navtex نامی بحریہ کے جہاز کی نگرانی میں یونان کے جزیرہ Kastellorizo کے قریب پانیوں میں سروے اور ڈرلنگ کے لئےOruc Reis(عروج ریس) جہاز کو روانہ کیا۔ ترکی کا ساحل بحیرہ روم میں 1577 کلو میٹر طویل ہے۔ دونوں ممالک کے دعویٰ کے مطابق ترکی کے ڈریلنگ کا مقام دونوں برآعظمی محراب (وہ منطقہ ہے جو کم گہرائی سے زیادہ گہرائی کی طرف جاتا ہے) ہے۔ یہ منطقہ جو علاقائی سمندر (Territorial Sea) کے 12 سمندری میل سے آگے دو سو کلومیٹریا اس سے آگے کا علاقہ ہوتا ہے جبکہ قدرتی وسائل سے استفادہ کی اجازت متعلقہ ملک کو ہوتی ہے۔اور یہ دعویٰ 350 کلو میٹر تک بھی ہوسکتا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ مذکورہ جزیرہ ترکی کی سرزمین سے قریب تر ہے اس طرح اس خطے پر اس کا حق زیادہ ہے۔ 16 اگست کو مصر اور یونان کے درمیان مشرقی بحیرہ روم کے علاقہ میںMaritime Zone (سمندر کی وہ پٹی جسے بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنوں نے متعین کیا ہو جس میں ساحلی مملکتیں اپنے حقوق کی عمل آوری کرسکتے ہیں)بنانے کے لئے ایک معاہدہ ہوا اور یہ معاہدہ ایک سال پہلے ترکی اور لیبیاء کے درمیان بحیرہ روم کے علاقہ میں مشترکہ کھوج اور وسائل سے استفادہ کے معاہدہ کا جواب تھاجس کے نتیجہ میں مشرقی بحیرہ روم کے علاقہ میں معاہدہ کے چاروں ممالک کے بحری جہاز ایک ہی خطے میں چاروں طرف منڈلانے لگے۔

نتیجتاً یونانی جہاز ترک جہاز سے ٹکرا گیا۔ جس پر اردغان نے اعلان کیا کہ ’’ہم اس معمولی حملہ کا جواب دیے بغیر نہیں ہٹیں گے‘‘ ۔1974 سے شمالی قبرص ترک کنٹرول میں ہے اور وہ سمجھتا ہیکہ اس جزیرہ کے وسائل پر بھی اسکا حق ہے۔ نومبر 1919 میں لیبیا سے ہوئے معاہدہ سے ترکی اس کے جنوب سے لیبیا کے شمالی ساحل تک کے سمندر کو اسکے خالص معاشی منطقہ کا حصہ سمجھتا ہے۔ مصراسکو غیر قانونی سمجھتا ہے تو یونان کا اعتراض ہیکہ اس کے پانچویں بڑے جزیرہ کریٹ (Crete) کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے جبکہ کریٹ یونان کے ساحل سے 160 کلو میٹر کی دوری پر ہے جبکہ یہ ترکی سے صرف دو کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ مشرقی بحیرہ روم کے علاقہ میں ترکی نے اس سال کے اواخر سے ڈریلنگ کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کے لئے لائسنس کی اجرائی کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے جس سے یوروپین یونین ، یونان اور جنوبی قبرص میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ اس سارے واقعات کے درمیان بھلا فرانس کب خاموش رہ سکتا ہے۔ چنانچہ صدرEmanuel Macron نے بحری جہاز کے علاوہ دو رافیل طیاروں کو بھی مشرقی بحیرہ روم کے لئے روانہ کیا ہے۔ UAEنے بھی اپنےF16 طیارے یوروپ یونین کے لئے روانہ کردیا ہے۔ اس سارے تنازعہ کا ایک قانونی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ یونان اب تک بحیرہ روم کے ترائی 2 میں 6 ناٹیکل میل حدود تک اپنی عملداری کا دعویٰ کرتا تھا۔ تاہم اب وہ بین الاقوامی سمندری قانون 1982 کے مطابق 12 سمندری میل کے حدود تک اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ اگر اس کو تسلیم کیا جائے تو کئی یونانی جزائر مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کے ساحل سے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر 12 سمندری میل کے قانون کو تسلیم کرلیا جائے تو ترکی کے سمندری راستے متاثر ہونگے۔ اس لئے ترکی Blue Homeland (ماوی وطن ) یعنی نیلا وطن کے اصول کو مانتا ہے۔ اس سے ترکی کی مراد پورا مشرقی بحیرہ روم کے علاقے ماوی وطن سمندر کو اپنی عملداری سمجھتا ہے۔ اسی لئے ا ردگان نے جون میں کہا تھا کہ’’ ہم 462 ہزار مربع کلو میٹر کے ماوی وطن علاقے کے تحفظ کے لئے پوری قوت ارادی کے ساتھ تیار ہیں اور جوبھی راستے میں آئے گاہم اس سے نمٹیں گے۔‘‘ اردگان کے یہ الفاظ اسرائیلی سفیر برائے امریکہ Abba Ebanکے 1957 میں ایک امریکی ٹی وی انٹرویو میں دیے گئے ان الفاظ کی یاددلاتے ہیں ‘ اس نے کہا تھا کہ’’ بین الاقوامی قانون وہ قانون ہے جسے بدمعاش مانتا نہیں اور شریف نافذکرسکتا نہیں۔!‘‘
dr.aq72@gmail.com