تشکیل تلنگانہ کا دسواں سال

   

علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے 9 سال پورے ہوچکے ہیں اور ہم اب دسویں سال میں داخل ہونے والے ہیں۔ ریاست میں بی آر ایس حکومت کی جانب سے دسویں سال کے موقع پر بیس روزہ یوم تاسیس تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تاسیس تلنگانہ کی تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس عرصہ میںحاصل کی گئی کامیابیوں کو پیش کرنے کیلئے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اپوزیشن اپنے پروپگنڈہ کی کوشش کر رہی ہے ۔ تشکیل تلنگانہ سے قبل مسلمانوں کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے ان کا اگر جائزہ لیا جائے تو تلنگانہ ریاست کے قیام کا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں مل سکا ہے ۔ دکھاوے کے چند نام نہاد کاموں کے علاوہ مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے اور اس میںسدھارلانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیںہوئی ہے ۔ مسلمانوں سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے یا پھر انہیں برفدان کی نذر کردیا گیا ہے ۔ چندر شیکھر راو حکومت کی جانب سے سماج کے تمام طبقات کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں اور جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو ان کا کوئی پرسان حال نہیںہے ۔ مسلمانوں کیلئے نمود و نمائش کے جو عہدے ہوتے ہیں ان کے تقررات تک بروقت نہیں کئے جاتے ۔ عہدیداروں کی تعیناتی مہینوں نہیں بلکہ برسوں تک نہیںہوتی ۔ اڈھاک بنیادوں پر کام چلایا جاتا ہے ۔ ایک ایک عہدیدار کو کئی کئی ذمہ داریاںدیتے ہوئے کام چلانے کی کوشش ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنے حکومت کے پاس کوئی وقت ہی نہیں ہے ۔ فنڈز بروقت جاری نہیں کئے جاتے ۔ ان کے فنڈز کو مسلسل کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جو فنڈز منظور کئے جاتے ہیں ان کی اجرائی میں کئی رکاوٹیںپیدا کی جاتی ہیں۔ جب وقت ختم ہوجاتا ہے تو یہ رقومات سرکاری خزانہ میںواپس کردی جاتی ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کوصرف حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اب تو ان سے کئے ہوئے وعدوں کا تذکرہ تک نہیں کیا جا رہا ہے وعدے پورے کرنا تو دور کی بات ہوگئی ہے ۔ اقلیتی قائدین کی زبانوں پر بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔
کے چندر شیکھر راو نے مسلمانوں کو چار ماہ کے اندر 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ دعوی کیا تھا کہ وہ اپنے دعووں کے سچے ہیں ۔ چار ماہ میں بارہ فیصد تحفظات فراہم کرنا تو دور کی بات ہے راج شیکھر ریڈی کی کانگریس حکومت میں جو چار فیصد تحفظات فراہم ئے گئے تھے ان کو تین فیصد کرنے کی ہر ممکن کوششیں ہو رہی ہیں۔ کچھ عہدیدار تو اس پر عمل بھی شروع کرچکے ہیں۔ حکومت اس پر خاموش ہے ۔ اقلیتی قائدین اس پر بہانے بازیاں کرنے اور مسلمانوں کو جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دینے میں مصروف ہیں۔ وقف کمشنریٹ قائم کرنے کا وعدہ کیاگیا تھا اس کی بجائے وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو مقفل کردیا گیا ۔ خود بورڈ حکام کو اس روم تک رسائی نہیں مل رہی ہے۔ درگاہ حسین شاہ ولی کی ہزاروں کروڑ روپئے مالیتی اراضی کو وقف قرار دینے مقدمہ لڑنے والے کے سی آر ہی اس اراضی کو اب سرکاری قرار دینے لگے ہیں۔ وقف بورڈ کی مقبوضہ اراضـیات سے ناجائز قبضے برخواست کرنے کا وعدہ کرنے والے کے سی آر کی حکومت میں مزید اراضیات کی تباہی ہو رہی ہے ۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو مقفل کرکے کیا کچھ کیا جا رہا ہے کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ اسلامک کلچرل سنٹر کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا تھا اب تک اس کا سنگ بنیاد تک نہیں رکھا گیا ۔ اجمیر میں رباط کی تعمیر کا جھانسہ دیا گیا اب تک شائد اراضی کی شناخت تک نہیںہو پائی ہے تعمیر تو دور کی بات ہے ۔
اسی طرح مسلمانوں سے دلت بندھو کی طرح کی اسکیم کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس پر بھی آج کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے قرضہ جات کی گذشتہ نو برسوں میں کبھی اجرائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔ اب جبکہ قرضہ جات کی اجرائی کی امید ہے تو اس میں بھی کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ڈبل بیڈ روم مکانات میں اب تک کتنے فیصد مسلمانوں کو الاٹمنٹ ہوا ہے اس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔ ہر طبقہ کیلئے بھون تعمیر ہو رہے ہیں لیکن مسلمانوں کی کوئی گنتی نہیں رہ گئی ہے ۔ مسلمانوں نے علیحدہ تلنگانہ ریاست سے جو امیدیں وابستہ کی تھیںگذشتہ نو سال میں ان میں کوئی پوری نہیں ہوئی ہے ۔ مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ علیحدہ تلنگانہ میں ان کا مستقبل کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہئے ۔