تعارف سورۃ الفتح، تاریخی پس منظر

   

گزشتہ سے پیوستہ … ایک جگہ ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو کیوں عذاب نہ دے حالانکہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام میں آنے سے روک دیا ہے‘‘۔مدینہ طیبہ میں مہاجرین و انصار کو بیت اللہ شریف کی زیارت کا شوق ہر وقت بےچین رکھتا تھا۔ اپنی اس خواہش کا اظہار وہ بارگاہ رسالت میں بھی کرتے رہتے تھے۔ حضور انہیں صبر کی تلقین کے ساتھ ساتھ یقین دلاتے کہ عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب یہ سب رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور تم بڑی آزادی سے حج و عمرہ کے ارکان ادا کر سکو گے۔
ایک روز نبی کریم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کو یہ نوید جانفرا سنائی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم سب امن و سلامتی کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سن کر صحابہ کرام کی خوشی کی حد نہ رہی۔ انہوں نے اللہ کریم کی حمدو شکر کے نعرے بلند کیے اور یہ خبر آن واحد میں سارے شہر میں پھیل گئی۔ صحابہ کرام یہ جانتے تھے کہ نبی کریم کا خواب عام خواب نہیں ہے بلکہ یہ وحی الٰہی ہے اور ا سمیں ہماری دیرینہ آرزو کے برآنے کی بشارت دی گئی ہے۔ اتنا تو انہیں یقین تھا کہ ایسا ضرور ہوگا، لیکن کس طرح ہوگا اس کے بارے میں مختلف وسوسے ان کو پریشان کرنے لگے۔ کیا قریش کے ساتھ جنگ ہوگی اور وہ انہیں شکست دے کر مسجد حرام میں داخل ہوں گے؟ کیا وہ زور بازو سے اہل مکہ کو شہر خالی کرنے پر مجبور کر دیں گے؟ کیا اہل مکہ خودبخود ان کے لیے شہر کے دروازے کھول دیں گے۔ بہرحال سفر کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں۔ مدینہ طیبہ سے باہر جو قبائل مسلمان ہوچکے تھے انہیں بھی دعوت دی گئی کہ وہ بھی اس سفر میں شریک ہوں۔
یکم ذیقعدہ کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی قیادت میں عشاق کا یہ قافلہ سوئے حرم روانہ ہوا۔ اس کی تعداد چودہ صد اور پندرہ صد کے درمیان تھی۔ حضور اپنی ناقہ قصوی پر سوار تھے۔ ستر اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ ان کے گلوں میں قلادے ڈال دیے گئے تھے تاکہ پہچان ہو سکے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں۔ یہ قافلہ جب مدینہ طیبہ سے چھ سات میل دور ذوالحلیفہ نامی گاؤں میں پہنچا تو سب نے عمرہ کا احرام باندھا۔ ان کے پاس ایک ایک تلوار تھی جو میان میں بند تھی۔ اس کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ تھا۔ ازواج مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ ؓ کو اس سفر میں حضور کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔
قریش کو جب نبی مکرم (ﷺ) کی روانگی کی اطلاع ملی تو ان کے دلوں میں وسوسوں اور اندیشوں کے طوفان امڈ آئے انہوں نے یہ خیال کیا کہ عمرہ محض بہانہ ہے۔ اصل مقصد مکہ پر قبضہ کرنا ہے۔ انہوں نے طے کر لیا کہ وہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو شہر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
حضور جب عسفان کے مقام پر پہنچے جو مکہ سے تقریبا دو دن کی مسافت پر واقع ہے تو بنی کعب قبیلہ کا ایک آدمی ملا۔ حضور نے اس سے قریش مکہ کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا کہ انہیں آپ کی روانگی کی خبر پہنچ گئی ہے۔ وہ مکہ سے نکل کر ذو طویٰ کے مقام پر خیمہ زن ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ آپ کو مکہ میں ہرگز داخل نہیں ہونے دیں گے۔ نیز انہوں نے آپ کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے دو صد شہسواروں کا دستہ دے کر خالد بن ولید کو کراع الغمیم کی طرف بھیج دیا ہے ۔ یہ بستی عسفان سے صرف آٹھ میل کے فاصلہ پر تھی۔
یہ سن کر فرمایا صد حیف ! قریش کو جنگوں نے کھوکھلا کر دیا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی ضد سے باز نہیں آئے۔ کیا حرج تھا اگر وہ میرے درمیان اور دیگر عرب قبائل کے درمیان حائل نہ ہوتے اگر عرب قبائل ہمارا خاتمہ کر دیتے تو ان کا مقصد پورا ہوجاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے ان پر غلبہ بخشتا تو وہ اپنی عددی کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہو جاتے، اور اگر اس وقت بھی اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے تو پھر مجھ سے جنگ کرتے، اس وقت وہ طاقتور ہوتے۔ آخر میں حضور نے فرمایا: قریش کیا سوچ رہے ہیں! بخدا میں اس وقت تک اس دین کے لیے جہاد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر دے یا میری زندگی ختم ہو جائے۔