تلنگانہ میں راہول گاندھی کی مہم

   

پھول مسکرائیں گے گلستاں بھی نکھرے گا
اپنی کوششِ پیہم رائیگاں نہیں ہوتی
تلنگانہ میں راہول گاندھی کی مہم
ملک کی پانچ ریاستوںمیں اسمبلی انتخابات کی مہم میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ حالانکہ ابھی تمام ریاستوں میں تمام امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں ہوا ہے اور صرف شیڈول جاری کیا گیا ہے لیکن تمام ہی جماعتیں انتخابی موڈ میں آگئی ہیں۔ ہندی ریاستوں کے علاوہ تلنگانہ اس بار بہت اہمیت کی حامل ریاست بن گئی ہے ۔ تلنگانہ کے انتخابی نتائج بہت اہم ہونگے اور اس کے آئندہ پارلیمانی انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جس طرح کانگریس سارے ملک میں اپنے احیاء اور نئی جان ڈالنے کی لگاتار کوششیں کر رہی ہے اسی طرح تلنگانہ میں بھی شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت بھی انتخابی مہم پر خاص توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل تکوگوڑہ میں وجئے بھیری جلسہ منعقد کیا گیا ۔ اس کو تلنگانہ کے جلسوں میں کامیاب ترین قرار دیا جا رہا تھا ۔ اب راہول گاندھی تلنگانہ میں تین دن کی بس یاترا کرچکے ہیں۔ انہوں نے کئی اسمبلی حلقوں کا احاطہ کیا اور عوام سے خطاب بھی کیا ۔ راہول گاندھی اپنی دادی اندرا گاندھی کی طرح تلنگانہ کے عوام سے اپنے آپ کو جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام سے گاندھی خاندان کے دیرینہ روابطہ کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔ پہلے دن پرینکا گاندھی نے بھی بس یاترا میں حصہ لیا اور انہوں نے بھی جلسہ سے خطاب کیا تھا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں انتخابی مہم کی ذمہ داری راہول گاندھی کے کندھوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا میں تلنگانہ کا بھی احاطہ کیا تھا اور عوام میں ان کی شبیہہ اب ایک مقبول لیڈر کی بننے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے مخالف گوشے بھی راہول گاندھی کو نشانہ بنانے میں احتیاط سے کام لینے لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی اور اس کے میڈیا سیل کی جانب سے سارا نشانہ راہول گاندھی ہی بنائے جا رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک بات تلنگانہ کی ہے تو یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ راہول گاندھی بھی تلنگانہ کے عوام سے اپنے رابطوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان کی بس یاترا اور جلسوں سے تو یہی ثبوت مل رہا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ راہول گاندھی ہی تلنگانہ کی انتخابی مہم کے واحد اسٹار ہیں۔ کانگریس کے کئی اور قائدین بھی اس میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں اور کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راو بھی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں اور وہ بھی اب لگاتار عوامی جلسوںسے خطاب اور عوام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ جس طرح سے راہول گاندھی کی انتخابی مہم کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں اور کانگریس کیڈر میں جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے اور عوام بھی راہول گاندھی کو قبول کرنے لگے ہیں اسی طرح کے سی آر کے بھی عوام سے رابطوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کی اپنی بھی مقبولیت ضرور ہے لیکن دیکھنا یہ اہمیت کا حامل ہوگا کہ آیا انتخابی مہم کے بعد جب ریاست کے عوام اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے تو اس بار وہ کس کی تائید کریں گے ۔ راہول گاندھی مستقبل کے منصوبوں اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی کسر باقی رکھنا نہیںچاہتے ۔ وہ ہر طرح سے انتخابی مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ پہلے بھی ریاست کے دورے کرچکے ہیں۔ ریاست سے متعلق ہر مسئلہ پر اپنی رائے کا بھی اظہار کر رہے ہیں اور عوام سے خود کو جوڑنے کی اپنی جانب سے تو ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔ نوجوانوں میںاس کا اثر واضح دکھائی دینے لگا ہے ۔ خاص طور پر طلبا و طالبات پر اثر انداز ہونے کے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ طلباء برادری کی تائید کسی بھی جماعت کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
ریاست کے شہری اور دیہی دونوں ہی علاقوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے راہول گاندھی کے پروگرامس اور شیڈول کو قطعیت دی جا رہی ہے ۔ اب تک کے پروگرامس سے تو یہی تاثر ملتا ہے ۔ انتخابی مہم جب امیدواروں کے پرچے داخل ہونے کے بعد عروج پر پہونچے گی تو قائدین کی آمد اور خطاب کے سلسلے بھی دراز ہوجائیں گے ۔ یہ بات ضرور ہے کہ کانگریس کے کئی قائدین میدان میں آئیں گے تاہم مرکزی حیثیت اور مقام راہول گاندھی ہی کو حاصل رہے گا اور تلنگانہ میںاپنے سیاسی مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کی کانگریس کی مساعی اور کوشش کا دار و مدار راہول گاندھی کی مہم پر زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔