جو میں دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میں سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔ خاص طور پر کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار کامیابی نے ریاست کی سیاست کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے ہیں۔ اس سے قبل راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی پارٹی کارکنوں میں جوش و خروش پیدا کردیا تھا اور عوام میں بھی کانگریس کے تذکرہ شروع ہوگئے تھے ۔ کرناٹک نتائج نے کارکنوں کے جوش و خروش کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ تاہم اب مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود قائدین بھی کانگریس کا رخ کرنے لگے ہیں۔ کئی قائدین پہلے ہی کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور کئی قائدین ایسے بھی ہیں جو کانگریں میں شمولیت چاہتے ہیں۔ ان میں کچھ قائدین ایسے بھی ہیں جو کانگریس سے بی آر ایس یا بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے اب وہ کانگریس میں واپسی کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس نے بھی اس مسئلہ پر ابھی تک تحمل و الی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے ۔ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں کرتے ہوئے حالات کو قابو سے باہر ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ ہفتے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کا دورہ کھمم بھی اہمیت کا حامل رہا ۔ اس موقع پر سابق رکن پارلیمنٹ پی سرینواس ریڈی کانگریس میںشامل ہوگئے ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ محبوب نگر سے تعلق رکھنے والے سابق ریاستی وزیر جے کرشنا راؤ بھی کانگریس میں جلد ہی شمولیت اختیار کریں گے ۔ آئندہ دنوں میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کا ایک جلسہ عام محبوب نگر میں منعقد ہوگا جس میں جے کرشنا راؤ کانگریس میں شامل ہوجائیں گے ۔ اس کے علاوہ کچھ ارکان قانون ساز کونسل بھی ہیں جو بی آر ایس سے کانگریس میں آنا چاہتے ہیں۔ کچھ سابق ارکان اسمبلی بھی قطار میں ہیں اور کچھ موجودہ ارکان اسمبلی کے تعلق سے بھی چہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ وہ کانگریس میں شامل ہونگے ۔ سیاسی قائدین کی ان سرگرمیوں کی وجہ سے بی آر ایس اور بی جے پی کی صفوں میں ہلچل بھی پیدا ہوئی ہے اور بی آر ایس اپنے اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی کارروائی بھی شروع کر رہی ہے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس نے اپنے ریاستی صدر کو ہی تبدیل کردیا ہے ۔ بنڈی سنجے کی بجائے جی کشن ریڈی کو ریاستی صدارت سونپ دی گئی ہے ۔ قائدین کے آپسی اختلافات نے مرکزی قیادت کو تلنگانہ کے تعلق سے فکرمند کردیا ہے ۔ حالات کو قابو میں کرنے کے مقصد ہی سے کشن ریڈی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو کس حد تک پورا کرپاتے ہیں اور اختلافات کی یکسوئی کس طرح سے ممکن ہوسکے گی ۔ بی آر ایس جوابی کارروائی کرتے ہوئے کچھ کانگریس و بی جے پی قائدین کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی تیاری میں مصروف ہوگئی ہے ۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ انتخابی کامیابی کی ہیٹ ٹرک کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ ان منصوبوں پر عمل آوری بھی شروع کی جاچکی ہے ۔ ریاستی وزراء اور سینئر قائدین کو اس تعلق سے مصروف کردیا گیا ہے ۔ اس سب کے باوجود حالات کی بی آر ایس کے حق میں بہتری کے امکانات زیادہ دکھائی نہیں دیتے ۔ وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی کی سربراہ شرمیلا بھی اپنی پارٹی کو کانگریس میںضم کرتے ہوئے شمولیت اختیار کرسکتی ہیں۔ اس مسئلہ پر اس وقت سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں جب شرمیلا نے کرناٹک کے ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار سے بنگلورو میں ملاقات کی تھی ۔ شرمیلا نے ابھی خود اس تعلق سے کوئی اعلان نہیں کیا ہے اور نہ کانگریس نے یہ اشارے دئے ہیں لیکن سیاسی حلقوں میں یہ بات ضرور موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔
سیاسی حالات میں جو تیز رفتار تبدیلیاں اب تک ہورہی ہیں ان میں آئندہ دنوں میں مزید تیزی پیدا ہوسکتی ہے ۔ کئی قائدین آخری مراحل تک انتظار کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جن قائدین کو اپنی پارٹی میں ٹکٹ نہیں ملے گا وہ بھی انحراف کرسکتے ہیں اور اپنے لئے سیاسی جگہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ریاست کے عوام کو حالات پر قریبی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے اور ریاست کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ حکومت کی کارکردگی اور متبادل کے منصوبوں دونوں کو نظر رمیں رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔