تلنگانہ میں غریب مسلمان حکومت کے رمضان گفٹ سے محروم

   

عہدیداروں کی تجویز نظر انداز، وقف بورڈ کو بھی اناج کی تقسیم کی اجازت نہیں
حیدرآباد ۔22۔ مئی(سیاست نیوز) تلنگانہ میں مسلمان جاریہ سال عیدالفطر کے موقع پر حکومت کی جانب سے رمضان گفٹ سے محروم رہیں گے ۔ اب جبکہ رمضان المبارک اختتام پذیر ہونے کو ہے، کے سی آر حکومت نے رمضان گفٹ کی تقسیم کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ محکمہ اقلیتی بہبود نے چیف منسٹر کو تجویز پیش کی تھی کہ ہر سال رمضان گفٹ کے طور پر دیئے جانے والے ملبوسات کی جگہ جاریہ سال راشن تقسیم کیا جائے تاکہ لاک ڈاون سے متاثرہ غریب خاندانوں کو مدد ملے۔ یہ تجویز چیف منسٹر کے سی آر کے پاس روانہ کی گئی اور ایک مرحلہ پر انہوں نے عہدیداروں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ تقسیم کے طریقہ کار کو طئے کریں۔ بتایا جاتا ہے کہ عہدیداروں کی جانب سے اس سلسلہ میں رپورٹ پیش کرنے کے باوجود چیف منسٹر نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ لہذا رمضان المبارک میں تلنگانہ کے غریب مسلمان حکومت کے تحفہ سے محروم رہیں گے۔ بجٹ میں مساجد کے پاس دعوت افطار اور دو لاکھ سے زائد غریبوں میں کپڑوں کی تقسیم کیلئے 66 کروڑ مختص کئے گئے تھے جبکہ اہم شخصیتوں کو چیف منسٹر کی جانب سے دی جانے والی دعوت افطار کے لئے 1.83 کروڑ مختص کئے گئے ۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں یہ دونوں کا انعقاد ممکن نہیں تھا لہذا محکمہ اقلیتی بہبود نے تجویز پیش کی کہ غریب مسلم خاندانوں میں رمضان المبارک کے دوران اناج تقسیم کیا جائے تاکہ عید کے اہتمام میں سہولت ہو۔ لاک ڈاؤن کے سبب غریب اور متوسط طبقات کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگرحکومت اناج کی تقسیم کا فیصلہ کرتی تو اندازہ کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ غریب خاندانوں کو اناج کے ذریعہ مددکی جاسکتی تھی۔ اب جبکہ حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، لہذا یہ بجٹ سرکاری خزانہ میں واپس ہوجائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کی مالی مشکلات کا بہانہ بناکر چیف منسٹر دفتر کے عہدیداروں نے اس تجویز کو عمل آوری سے روک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے ہی سفید راشن کارڈس ہولڈرس کو چاول اور 1500 روپئے امداد تقسیم کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے ہر سال رمضان میں ریاست کے تمام اضلاع کی منتخب مساجد کے پاس دعوت افطار اور غریبوں میں ملبوسات کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا ۔ لاک ڈاؤن سے پریشان حال خاندانوں کی مدد کے بجائے چیف منسٹر دفتر کے عہدیداروں کی جانب سے مخالفت کرنا افسوسناک ہے۔ حکومت دیگر مذاہب کے تہواروں کے موقع پر اس طرح کے تحائف تقسیم کرتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرسمس کے موقع پر غریب عیسائیوں میں تقسیم کئے جانے والے ملبوسات کیا جاریہ سال روک دیئے جائیں گے؟ دوسری طرف تلنگانہ وقف بورڈ کے صدرنشین محمد سلیم نے 20,000 سے زائد مسلم خاندانوں کی اناج کے ذریعہ مدد کے لئے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے دو کروڑ روپئے کی منظوری حاصل کی تھی لیکن حکومت نے تقسیم کی اجازت نہیں دی ۔ وقف بورڈ اگرچہ خود مختار ادارہ ہے ، لہذا اسے حکومت سے اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ باوجود اس کے رسمی طور پر بورڈ کے فیصلہ سے حکومت کو واقف کرایا گیا جس پر حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے تقسیم پر روک لگادی۔ ڈائرکٹر اقلیتی بہبود نے حکومت کو اپنی رپورٹ میں وقف بورڈ کے فیصلے کی تائید کی ۔ باوجود اس کے محکمہ کی جانب سے منظوری نہیں دی گئی اور 20,000 سے زائد غریب مسلم خاندانوں کو راشن سے محروم کردیا گیا۔ اقلیتوں کی بھلائی اور مسلم دوستی کا دعویٰ کرنے والے ٹی آر ایس حکومت کیلئے بہترین موقع تھا کہ وہ دعوت افطار کے بجٹ کو غریب مسلم خاندانوں پر خرچ کرتی تاکہ اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ ہوتا۔ افسوس کہ حکومت میں شامل افراد اور عوامی نمائندوں میں چیف منسٹر سے نمائندگی نہیں کی جس کے نتیجہ میں یہ اسکیمات عمل آوری سے محروم رہیں۔