تلنگانہ میں کانگریس کا استحکام

   

کوئی نشان لگاتے چلو درختوں پر
کہ اس سفر سے تمہیں لوٹ کے بھی آنا ہے
تلنگانہ میں سیاسی رسہ کشی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ آئندہ چند ماہ کے اندر ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اس کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ ہر جماعت اپنے موقف کو مستحکم کرنے اور عوامی تائید حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ برسر اقتدار بھارت راشٹرا سمیتی ریاست میں اقتدار کی ہیٹ کرنے کی خواہاں ہے اورا س کیلئے پارٹی نے تیاریاں عملاشروع بھی کردی ہیں۔ ریاست میں بی آر ایس کی متبادل بننے اور اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی مقابلہ سے باہر ہورہی ہے ۔ بی جے پی میں داخلی اختلافات اور تنازعات نے پارٹی کو مشکل صورتحال سے دوچار کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ کرناٹک میں پارٹی کی کراری شکست نے اس کے کیڈر کے حوصلے بھی پست کردئے ہیں۔ ریاست میں طویل وقت تک کمزور موقف رکھنے والی کانگریس پارٹی تاہم ایسا لگتا ہے کہ اپنے آپ کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہونے لگی ہے ۔ پارٹی قائدین اور کیڈر کے حوصلے کرناٹک میں پارٹی کی جیت سے بلند ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی کیڈر میں نیا جوش و خروش پیدا کیا تھا ۔ ریاستی قائدین نے بھی پدیاترائیں کی ہیں۔ صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی نے بھی ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا کی ۔ اس کے علاوہ مقننہ پارٹی لیڈر ملو بٹی وکرامارکا بھی پیدل دورے کر رہے ہیں اور عوام سے رابطے کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد ریاست کی سیاسی صورتحال میں تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔ بی آر ایس اور بی جے پی کے کچھ قائدین کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے لگے ہیں۔ کانگرسے سے کئی اور قائدین بھی رابطے بنانے میں مصروف ہیں۔ سابق رکن پارلیمنٹ پی سرینواس ریڈی اور سابق ریاستی وزیر جوپلی کرشنا راؤ سمیت بی آر ایس کے کچھ قائدین آئندہ مہینے کے اوائل میں کانگریس میںشمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ وہ راہول گاندھی سے ملاقات کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ کئی اور قائدین کی کانگریس میں شمولیت کے امکانات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
نہ صرف بی آر ایس بلکہ بی جے پی سے بھی کچھ قائدین کانگریس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں سابق ریاستی وزیر ایٹالہ راجندر بھی شامل ہیں جو بی آر ایس سے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔ اسی طرح کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے والے سابق رکن اسمبلی کے راجگوپال ریڈی بھی کانگریس میں واپسی کرسکتے ہیں۔ ان قائدین کے تعلق سے بھی بات چیت ہو رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ تلنگانہ وائی ایس آر پارٹی کی سربراہ وائی ایس شرمیلا بھی کانگریس کے ساتھ آسکتی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کرسکتی ہیں۔ تلنگانہ جنا سمیتی کے سربراہ پروفیسر کودانڈا رام سے بھی ان کی پارٹی کی کانگریس میں شمولیت کے تعلق سے بات چیت ہو رہی ہے ۔ یہ سارے حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سیاسی حلقوں میں کانگریس کے تعلق سے امیدیں بڑھ گئی ہیں اور اس کے انتخابی امکانات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ بی آر ایس کو بھی کانگریس سے فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنے والے بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ اب بی جے پی کی بجائے کانگریس کو نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کے تعلق سے بی آر ایس کے موقف میں نرمی پیدا ہوئی ہے ۔ بی آر ایس نے دو سال سے جاری مرکزی وزراء کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کو ختم کردیا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ مودی پر مسلسل تنقید ختم کرکے اور وزیر اعظم کو اپنا ایک اچھا دوست قرار دے رہے ہیں۔
کانگریس کا جہاں تکس وال ہے تمام قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ دہلی میں مرکزی قائدین بشمول پارٹی صدر ملکارجن کھرگے اور سابق صدر راہول گاندھی نے ریاستی قائدین سے بات چیت کی ہے ۔ انہیں آپسی اختلافات کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ موجودہ قائدین کے آپسی اتحاد اور دیگر جماعتوں کے قائدین کی شمولیت سے پارٹی کو استحکام ملنے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے ۔ عوام سے رابطے بحال ہو رہے ہیں۔ پارٹی کیڈر کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور بنیادی سطح پر پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس صورتحال سے کانگریس کی امیدیں بڑھ گئی ہیں اور سیاسی لڑائی دلچسپ ہونے لگی ہے ۔