تلنگانہ کے ساتھ معاندانہ رویہ

   

Ferty9 Clinic

اپوزیشن کا کام حکومت کے کاموں میں خامیاں تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ آج کا ریاست میں برسر اقتدار طبقہ ہو یا مرکز کی حکومت کہیں اپوزیشن تو کہیں اقتدار پر ہے لیکن کارکردگی کے معاملے میں ایک دوسرے پر تنقیدیں کرتے ہوئے حکمرانی کا سفر جاری رکھتے ہیں ۔ تلنگانہ میں گذشتہ 7 سال تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی حکومت ہے ۔ اس کے پیچھے ہی مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ۔ اب یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ تلنگانہ میں جب سے بی جے پی نے اپنے قدم جمانے شروع کئے ہیں ۔ ٹی آر ایس کے لیے ریاستی مشکلات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ لیکن جب کوئی حکومت باقی معاملات کو چھوڑ کر صرف اپوزیشن کے پیچھے پڑ جائے تو سرکاری کام ٹھپ ہونے لگتے ہیں ۔ اسی طرح کا سیاسی منظر تلنگانہ میں دکھائی دے رہا ہے ۔ تلنگانہ کی برسر اقتدار ٹی آر ایس حکومت کا دعویٰ ہے کہ مرکز کی مودی حکومت نے تلنگانہ کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے اور بی جے پی قائدین نے جھوٹے پروپگنڈے کے ذریعہ مرکز سے تلنگانہ کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈس کی اجرائی کا دعویٰ کیا ہے ۔ ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ کو اس بات پر غصہ آرہا ہے کہ مرکز نے تلنگانہ کو اس کے فنڈس کا حصہ ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود بی جے پی قائدین کے دعوؤں سے تلنگانہ کے عوام میں غلط پیام جارہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا پسندیدہ جملہ یہ ہے کہ وہ ٹیم انڈیا کے جذبہ کے ساتھ کام کررہے ہیں اور ریاستوں کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ ٹیم انڈیا کا نعرہ کھوکھلا دکھائی دیتاہے خاص کر اس وقت جب ریاستوں کو ان کے حصہ کا فنڈس نہیں ملتا ۔ ریاست تلنگانہ کی بھی یہی شکایت ہے کہ وزیراعظم مودی کے ٹیم انڈیا اسپرٹ کے باوجود وفاقی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی مدد نہیں کی جارہی ہے ۔ وزیر کے ٹی راما راؤ نے مودی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ تلنگانہ کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہی ہے ۔ جب کہ تلنگانہ واحد ریاست ہے جس نے کم مدت میں ملک کی مثالی ریاست ہونے کا درجہ حاصل کیا ہے ۔ آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت تلنگانہ سے جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا نہیں کیا گیا ۔ ترقیاتی پراجکٹس کے لیے فنڈس کی فراہمی کا وعدہ جوں کا توں ہے ۔ کے سی آر کی حکومت نے مرکز کی جانب سے فنڈس کی عدم اجرائی کے باوجود ریاستی بجٹ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تیار کرنے کا اعلان کیا۔ ہر دو حکومتوں کے بیانات اور اعلانات صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہیں تو پھر ترقیاتی پروگراموں کا توازن بگڑ جائے گا ۔ اس سے عوام کو راحت نصیب نہیں ہوگی ۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ مرکز اور ریاست دونوں کو عوام کے ووٹ کی کی قدر صرف اس وقت ہوتی ہے جب انتخابات ہوتے ہیں ۔ تلنگانہ کو ایک مثالی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس حکومت نے خود اپنے کئی وعدے پورے نہیں کئے ۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں تو انہیں پائی پائی کا حساب مانگنے کا حق ہے لیکن عوام اپنے رویہ سے یہ ثابت کررہی ہے کہ انہیں حکومتوں سے حساب مانگنے کی فرصت نہیں ہے ۔ ریاست اور مرکزی حکومت کے درمیانی لکیر نے عوام کی ترقی کی راہوں کو تنگ کردیا ہے تو پھر وفاقی ڈھانچہ کو بہتر بنانے مرکز کی ذمہ داریوں کو یاد دلانا ضروری ہے ۔ جب وزیراعظم نریندر مودی ٹیم انڈیا اسپرٹ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں اس نعرے کے مطابق عملی قدم بھی اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ تلنگانہ حکومت کو بھی اپنے آنے والے بجٹ میں عوامی فلاح و بہبودی پروگراموں کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈس مختص کرنے ہوں گے ۔ 15 مارچ سے شروع ہونے والا تلنگانہ اسمبلی کا بجٹ اجلاس کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے بعد پیش ہونے والا بجٹ ہے جس میں عوام کی ضروریات کا بھر پور خیال رکھ کر بجٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔۔