تلنگانہ میں سیاسی ماحول میں گرمی پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ جس وقت سے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج آئے ہیں اس وقت سے تلنگانہ کے سیاسی حلقوں میں امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرگرمیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ جہاں بی جے پی اچانک ہی تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے اور یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ بی جے پی اور بی آر ایس میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے کانگریس کے حلقوں میں بھی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ کانگریس قائدین اور کارکنوں میں جوش و خروش دکھائی دینے لگا ہے ۔ تاہم ساتھ ہی چیف منسٹر و بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ بھی اپنی حکمت عملی کو قطعیت دے چکے ہیں اور وہ اپنے منصوبوں پر بتدریج عمل آوری کا آغاز کرچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کے سی آر ریاست میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کیلئے کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتے اور ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم سیاسی حلقوں میں جو چہ میگوئیاں چل رہی ہیں ان کے مطابق کے سی آر کیلئے ہیٹ ٹرک کرنا ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہوگیا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں اور ریاست کے ووٹرس کو راغب کرنے کیلئے جو اعلانات کئے گئے ہیں یا مزید کئے جاسکتے ہیں ان کے نتیجہ میں کے سی آر کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں اقلیتی برادریوں اور خاص طور پر مسلمانوں میں حکومت کے تعلق سے جو عدم اطمینان اور بے چینی کی کیفیت ہے اس کے نتیجہ میں بھی بی آر ایس کو انتخابات میں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بی جے پی اگر شدت سے مقابلہ نہیں کرتی ہے تو اس کے بھی بی آر ایس کو منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ کانگریس کی جانبس ے بی آر ایس۔بی جے پی خفیہ مفاہمت کے الزامات کا بارہا اعادہ کیا جاتا رہے گا اور اس سے مسلم ووٹرس کا رول اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ کے سامنے اب جہاں اپنی حکومت کی ہیٹ ٹرک کرنے کا چیلنج ہے وہیں ان کے سامنے کئی مسائل بھی درپیش ہیں ۔ ان سے نمٹنا ریاست کی موجودہ سیاسی صورتحال میں آسان دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ تاہم کے سی آر اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کے سی آر نے اپنے ارکان اسمبلی کے تعلق سے مختلف ایجنسیوں سے سروے کروایا ہے ۔ تقریبا تین درجن سے زائدا رکان اسمبلی کے تعلق سے رپورٹ منفی آئی ہے ۔ ان حلقہ جات کے عوام ارکان اسمبلی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ ان کو دوبارہ ووٹ دینے کے حق میں دکھائی نہیں دیتے ۔ اس کے علاوہ کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جہاں کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر ارکان اسمبلی بی آر ایس میں شامل ہوئے تھے ۔ اگر انہیں کو دوبارہ ٹکٹ دیا گیا تھا جو قائدین ابتداء سے بی آر ایس میں ہیں انہیں ناراضگی ہوگی اور ان کو مطمئن کرنا کے سی آر کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ کئی قائدین نے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں کانگریس میں شمولیت کے امکانات کو بھی برقرار رکھا ہے اور وہ در پردہ کانگریس قائدین سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جن حلقہ جات میں بی آر ایس کے ارکان اسمبلی ہیں ان میں بھی کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں پارٹی قائدین اب اپنے لئے موقع چاہتے ہیں۔ جن ارکان اسمبلی کی کارکردگی سے حلقہ کے عوام مطمئن نہیں ہیں اگر انہیں بدلا جاتا ہے تو وہ بھی پارٹی قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں کے سی آر یا بی آر ایس کسی بھی سطح پر سیاسی یا عوامی مخالفت کو برداشت کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں کے سی آر کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے اور یہ دیکھا جائیگا کہ وہ اس صورتحال سے کس طرح سے نمٹتے ہیں۔ ایسے حالات سے نمٹنے میں کے سی آر کی مہارت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرنے کے بعد ہونے والے ان انتخابات کے نتائج کا نہ صرف ریاست کی بلکہ قومی سیاست پر بھی کافی اثر ہوسکتا ہے ۔ بی آر ایس اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسے دوسری ریاستوں کے عوام سے رجوع ہونے میں آسانی ہوگی ۔ اگر اسے تلنگانہ ہی میں شکست ہوتی ہے تو پھر اس کے قومی عزائم پر روک لگ سکتی ہے ۔ عوام کی مخالفانہ رائے ‘ اقلیتوں میں بے چینی ‘ قائدین میں ناراضگی اور حکومت کی دو معیادوں کی تکمیل جیسے مسائل سے کے سی آر کو مسائل اور چیالنجس کا سامنا ضرور ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاسی تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس صورتحال کا کس طرح سے سامنا کرپاتے ہیں۔