تکثیری معاشرہ ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت

,

   

تنوع ، ترقی و جمہوریت کے تکون پر مبنی دنیا کیلئے عظیم مثال ’’ہندوستانی ماڈل ‘‘،70ویں یوم جمہوریہ پر صدر کووند کا قوم سے خطاب

نئی دہلی۔/25جنوری، ( سیاست ڈاٹ کام ) صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کہا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کی تکثیر و تنوع ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے اور یہ ’’ ہندوستانی نمونہ ‘‘ تکثیر ، تنوع، جمہوریت اور ترقی کے تکون پر منحصر ہے۔ صدر کووند نے 70 ویں یوم جمہوریہ ہند کے موقع پر قوم سے خطاب میں کہا کہ عوام کے تمام طبقات کی شمولیت تک، سب کی رسائی اور اس مقام تک جس کو ہم اپنا تصور کرتے ہیں اپنی وسعت، قبولیت اور حصول کے جذبہ کو سلام کئے بغیر ہندوستان کی ترقی کا نظریہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہرکسی کا ہے، ہر گروپ ، ہر طبقہ ، ہر علاقہ اور ہر انفرادی شناخت کا ہے یہ ہر ایک شہری اور ہر انفرادی فرد کا ہے۔ ہندوستانی تنوع اس کی سب سے بڑی طاقت ہے اور ساری دنیا کیلئے یہ سب سے عظیم مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ ہندوستانی نمونہ ‘ تکثیر، ترقی اور جمہوریت کے تکون پر مبنی و منحصر ہے۔ ہم ان میں سے محض کسی ایک کو منتخب نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس یہ تینوں ( خصوصیات ) ہیں۔‘‘ صدر کووند نے کہا کہ ہندوستان میں سماجی تبدیلی کا بہترین اشارہ صنفی مساوات کے تئیں تبدیلی اور مساویانہ موقعوں کی فراہمی ہے۔ صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’’ میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب ہم انہیں موقع دیتے ہیں تو ہماری بیٹیاں کلاس روم میں نہ صرف مساویانہ مظاہرہ کیا

بلکہ ہمارے بیٹوں پر بھی سبقت حاصل کی ہیں۔ ہمارے ملک میں موجود خواتین تعلیم سے لیکر فنون لطیفہ تک اور اسپورٹس سے لیکر مسلح افواج تک الغرض ہر شعبہ میں مسلسل ترقی کے راستہ پر گامزن ہیں۔ اس عمل میں کوئی توقف ( رکاوٹ ) ہے اور نہ ہی کوئی پس و پیش ہے۔ یہی ہندوستان کے مستقبل کی راہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک ایک طویل سفر طئے کیا ہے اور گزری ہوئی نسلوں ( پیڑھیوں ) کی طرف سے کئے گئے کاموں کی ستائش کی جانی چاہیئے۔ ہمیں اس بات کی حمایت کرنا چاہیئے کہ ہمارا سفر تکمیل سے ہنوز بہت دور ہے۔ صدرجمہوریہ نے عالمانہ و مدبرانہ انداز میں اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید کہاکہ ہنوز ایسے کئی خلا ہیں جنہیں پُر کرنا باقی ہے۔ ہنوز ایسے آنسو ہیں جنہیں پونچنا باقی ہے۔ ہمیں اپنی حصولیابی اور کامیابیوں کے پیمانے کو وسعت دینا ہے۔ مقدار سے معیار تک،خواندہ معاشرہ سے معلومات، تعلیمیافتہ معاشرہ تک وسعت دینا ہے۔ ایک ایسی قوم ہو جہاں تمام طبقات ایک خاندان جیسا رکھ سکیں جہاں ہر بیٹی ، ہر بیٹے اور ہر فرد واحد کی انفرادیت کی خوشی کے ساتھ حوصلہ افزائی کی جائے۔ صدر ہند نے کہا کہ ’’ حکومت اور عوام کی ساجھیداری ایک ملک اور ایک قوم تعمیر کرتی ہے اور مختلف ممالک و اقوام کی ساجھیداری ایک بہتر دنیا بناتی ہے۔ اس انداز کی ساجھیداری، ایک خاندان، ایک قوم اور ایک دنیا کے تارپودجوڑتی ہے اور دنیا کے ایک خاندان ’’ واسو دائیوا کٹمبکم ‘‘ بنانے کی موجب ہوتی ہے‘‘ ۔ صدر کووند نے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ ’’رفاقت و ساجھیداریاں ‘‘ کشادہ ذہنی کے ساتھ کئے جانے والے رابطوں، دیانتداری، مذاکرات اور بے پناہ صلہ رحمی سے بڑھتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ارکان خاندان پر صادق آتا ہے ۔ نیز ان طبقات اور گروپوں پر بھی صادق آتا ہے جو تاریخی طور پر محروم المراعات رہے ہیں ان کی شکایات پر مسلسل شنوائی اور ازالہ ہوتا رہنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کم مراعات یافتہ گوشوں اور معذورین کے ساتھ بھی صلہ رحمی و ہمدردی روا رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔