تین سال کی جیل

   

بی جے پی کے خوش فکر سے مسلم خواتین کی بگڑی حالت بہتر بنانے کی فکر میں غلطاں رہ کر طلاق ثلاثہ بل کو راجیہ سبھا سے بھی منظور کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ایوان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود یہ بل کس طرح منظور ہوا یہ غور طلب ہے ۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ایوان راجیہ سبھا میں رائے دہی کے دوران غیر حاضر ہو کر بی جے پی کا ساتھ دیا ہے ۔ یہ ان کی ایسی گستاخیاں ہیں جس کو ہندوستان کے سیکولر رائے دہندے کبھی معاف نہیں کریں گے ۔ بی جے پی کی من مانی کو روکنے والا کوئی نہیں ہے جو اپنی غلطی سدھارنے کی بجائے غلطی پر غلطی کرتے جارہے ہیں ۔ یہ مسلم خواتین کا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس سے وہ ابھر نہ پائیں گی ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے قانون سے مسلم خواتین کو صرف نقصان ہی ہوگا ۔ مسلمانوں نے جن کو سیکولر اور اپنا ہمدرد سمجھ کر ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچایا وہ ان کے پرسنل لا پر لات مار کر اپنی ووٹ بینک پالیسی کو مضبوط بنا گئے ۔ اگر مسلمان اس واقعہ پر بھی ہاتھ یا آنکھیں ملتے رہ جائیں تو ان کے ساتھ اس سے زیادہ بڑا دھوکہ ہوگا ۔ مودی حکومت نے مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دیا ہے ۔ اس خطرناک قانون کو راجیہ سبھا سے بھی منظور کرلیا گیا ۔ بی جے ڈی اور این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں جنتادل یو اور انا ڈی ایم کے نے واک آوٹ کیا تھا ۔ گذشتہ ہفتہ ہی لوک سبھا میں بل کو منظوری دی گئی تھی ۔ صدر جمہوریہ کی منظوری ملنے کے بعد یہ قانون باقاعدہ نافذ العمل ہوگا اور مسلمان مرد اپنی بیوی کو 3 طلاق دے گا تو اس کو مجرمانہ حرکت قرار دے کر 3 سال تک جیل کی سزا دی جائے گی ۔ راجیہ سبھا میں حکمراں بی جے پی کے ارکان کی تعداد کم ہونے کے باوجود بل کو 99 ارکان کی تائید حاصل ہوئی اور مخالفت میں 84 ارکان نے ووٹ ڈالے جب کہ ووٹوں کی تقسیم کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوا ہے ۔ راجیہ سبھا میں قبل ازیں اس بل کو مسترد کردیا گیا تھا اور راجیہ سبھا سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کیا گیا ۔ 242 رکنی راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے 107 ارکان میں جو اکثریت سے کم ہے تاہم حلیف پارٹیوں کے واک آوٹ اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی رائے دہی سے غیر حاضری نے بل کو منظور کرانے میں بی جے پی کی مدد کی ہے ۔ اس حکمت عملی سے حکومت نے حق معلومات قانون میں ترمیمات کر کے منظور کرالیے تھے ۔ تقریباً 20 ارکان راجیہ سبھا نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا ۔ ان میں کانگریس کے پانچ اور سماج وادی پارٹی کے پانچ ارکان شامل ہیں ۔ اب سیکولر کانگریس کو ایوان بالا میں یہ وضاحت کرنی پڑے گی کہ آخر اس کے چار سرکردہ وہپ کے باوجود اس کے ارکان ایوان میں موجود کیوں نہیں تھے ۔ طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے ذریعہ نریندر مودی حکومت خود کو مسلم خواتین کی چمپئین قرار دے رہی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس قانون کے ذریعہ مسلم خواتین کو جارحیت پسندانہ عمل سے آزاد کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جس عمل کو پہلے ہی روک دیا گیا ہے اس کو بی جے پی حکومت اپنا کارنامہ قرار دینے کی کوشش کررہی ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کو خواتین ، عدلیہ اور آئین کے مغائر قرار دیا ہے ۔ بہر حال حکومت نے اس طرح مسلم مرد و خواتین کے درمیان عدالتی کارروائیوں کو طول دیتے ہوئے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرلیا ہے ۔ اس قانون سے مسلم خواتین کا کچھ بھلا نہیں ہوسکتا بلکہ اقلیتوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر اور شوہر اور بیوی میں نفاق پیدا کرنے والے قانون کے ذریعہ کنگال بنانے کی سازش ہے ۔ میاں بیوی مقدمات میں ہی اپنی ساری زندگی صرف کردیں گے ۔ شوہر کو جیل ہوگی تو مقدمہ کا خرچہ اس کی جائیداد فروخت کر کے پورا کرلیا جائے گا ۔ مسلم خواتین کے حق میں بی جے پی حکومت کے حسن سلوک کا ایک بدترین پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم پرسنل لا میں راست مداخلت کی ہے ۔۔