ایودھیاتنازعہ1949-1984تک ایک مقامی مسئلہ تھا‘ مگر منظم فرقہ پرستی کے بعد آج یہ یہاں پہنچ گیاہے
مذکورہ ایودھیاتنازعہ بہت جلد حل ہوسکتا ہے۔ اس بات کا مضبوط اشارہ مل رہا ہے کہ مسلم دعویدار بابری مسجد سائیڈ پر سے اپنے دعوی کی دستبرداری کے لئے تیار ہیں اور انہوں نے عدالت کی جانب سے مقرر کردہ ثالثی پینل کو نہایت مثبت انداز میں ردعمل پیش کیاہے۔
دوسرے لفظوں میں عالیشان رام مندر کی ایودھیامیں تعمیرمستقبل قریب میں کسی قانونی چارہ جوئی اور سیاسی مداخلت کے ممکن نظر آرہی ہے۔واضح طور پر نظر آنے والے اس ڈیولپمنٹ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
اب تک اس ”زمین تنازعہ“ کو حل کرنے کے لئے جس طرح کا فرقہ وارانہ نوعیت کا فریم ورک بطور پر شہری تنازعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پیش کیاجارہا ہے وہ قابل سوال ہے۔
اس کے باوجود اس حقیقت کے بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ پچھلے تین دہوں سے شدید فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بنا ہے‘ اس کی تین وجوہات ہے جس کے سبب ہندوستان کے ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان بنیاد جھگڑے کی بنیاد پر اس کو حل نہیں کیاجاسکتا ہے۔
سال1986سے قبل یہ قومی مسئلہ نہیں تھا۔ ہمیں اس بات کو ضروری طور پر یارکھنے کی ضرورت ہے کہ ایودھیا کا مسئلہ 35سالوں تک قومی مسئلہ نہیں تھا۔
اس تنازعہ کی قانونی کہانی 1949میں اسوقت شروع ہوئی جب ایک ہجوم نے کارگرد مسجد پر قبضہ کرتے ہوئے اس کے اندر ہندو بھگوان رام کی مورتی جبری طور پر رکھ دی۔
مورتیاں ہٹائے بغیر ضلع انتظامیہ نے مسجد کواسی روز مقفل کردیا۔ اس کے اندر کسی کوبھی عبادت کی مقامی مجسٹریٹ نے اجازت نہیں‘ حالانکہ بعد میں انہوں نے مقامی پجاری کو مورتیوں کے لئے بھگوگ پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔
کوئی بھی ہندو اور مسلم تنظیم نے اس پر دلچسپی نہیں دیکھائی اور1984تک بھی یہ مقامی مسئلہ رہاتھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر شائع کوئی بھی دستاویزات ہمیں اس وقت کا نہیں ملا جو ہندو اور مسلم دباؤ پیدا کرنے والے گروپ جیسے آر ایس ایس‘
مسلم مجلس مشاورت‘ جماعت اسلامی اور جمعیت العلماء ہند کی جانب سے شائع کیاگیا ہو۔
سال1959میں آر ایس ایس کی جانب سے منظور کردہ ایک قرارداد جس میں مسلم حکمرانوں کی جانب ہندو منادر کی انہدام کی بات کہی گئی تو وہ یہاں پر کافی متعلقہ ہے۔
اس میں زوردیاگیا تھا کہ”کاشی وشواناتھ مندر کو اعزاز کی خصوصی جگہ کے طور پر قبضہ کیاگیاتھااور حکومت پر زوردیاگیاکہ وہ مذکورہ مندر کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کے اقدامات اٹھائے‘۔
(http://www.archivesofrss.org/Resolutions.aspx accessed on 6 November 2017; the link has now been removed).
اسی طرح ہندوستان کی تاریخ پر وی ڈی ساورکر کی مشہور کتاب جس میں ہندو نظریات کے مطابق ہندوستانی تاریخ کا احیاء عمل میں لایاگیاتھامیں بھی 16ویں صدی میں بابر کے ہاتھوں کسی رام مندر کے انہدامی کا ذکر نہیں کیاگیاتھا۔
مسلم تنظیمیں بشمول مسلم مجلس مشاورت(جس کا قیام 1964میں آیاتھا) نے ایودھیامیں بابری مسجد پر قبضے کے متعلق کوئی تشویش ظاہر نہیں کی تھی۔
اس حقیقت کے باوجود کے سنی وقف بورڈ 1961میں اس کیس میں پارٹی بنا‘ مسلم تنظیموں نے کوئی سیاسی خصوصیت اس کیس میں نہیں دیکھائی
۔آسان بات یہ ہے کہ ایودھیاتنازعہ 1949-1984کے وقت تک دوپارٹیوں کے درمیان ایک مقامی مسئلہ تھا‘ کچھ ایک ماقامی ہندو اور مسلم افراد یا پھر دو ادارے‘ مذکورہ سنی وقف بورڈ اور ہنومان گڑھی۔
وشواہندو پریشد کے ہاتھ1984میں ایودھیا تنازعہ لگا اور اس نے اس کو قومی مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔
اس تنظیم نے اترپردیش میں رتھ یاترا نکالے اور ہندوؤں کو پہلی مرتبہ1949میں اکٹھا کیاتاکہ بھگوان رام کے جائے پیدائش کو آزاد کراسکے۔
اس کے ردعمل میں ایک مقامی تنظیم بابری مسجد ایکشن کمیٹی فیض آباد کا بھی فیض آباد میں قیام عمل میں آیا۔
تاہم اس مسلئے کو سیاسی رنگ دینے کی شروعات1986فبروری میں ہوئی۔
دوہفتوں کے وقت میں ایک مقامی عدالت نے بابری مسجد کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیاتاکہ ہندو عقیدت مندوں کو بناء کسی رکاوٹ کے اندر پوجا کرنے کی پیشکش کی جاسکے۔
روایتی طور پر یہ اقدام کشیدگی کا سبب بنا۔ مذکورہ ہندو اور مسلم تنظیموں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں نے ایودھیامعاملہ کو سیاسی فروغ کامعاملہ بنادیا۔
ٹھیک اسی طرح بابری مسجد کا مقام اسلام اور ہندوازم کے درمیان کشیدگی کی نشانہ بن گیا۔ مسجد کی شہادت کے بعد تعجب کی بات یہ رہی کہ شدت پسند سیاسی معاملہ فوری مر گیا۔
تمام مسلم فریق اور گروپ نے کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بابری مسجد کو ایک قانونی مسئلہ کے طورپر تسلیم کرنے کے متفقہ طور پر ذمہ دار بنادیا
۔سال1988سے بی جے پی نے رام مندر مسلئے کی کامیابی کے ساتھ قیادت کی‘ او راسی کے ساتھ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ بھی لیا۔
این ڈی اے کے ساتھ جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کے مقصد سے یہ فیصلہ کیاگیا کہ مندر کے مسلئے پر سیاسی تحریک کو زیر التوا رکھا جائے۔
اس تحریک کی بنیاد پر عام مسلمانوں او رہندو ؤں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کردی گئی۔ اس کے بعد خود ساختہ ہندو اورمسلمان فریق اس قانونی جنگ میں شامل ہوگئے‘
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے ہم نہ تو ہندو اور نہ ہی مسلمان کمیونٹیوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ہمارا مقصد بابری مسجد اور رام جنم بھومی جو کہ ایک مقامی مسئلہ تھا
اسکو سیاسی رنگ دے کر کس طرح قومی مسئلہ بنایاگیا اور اس کو ملک کے ہندو ؤں کے جذبات سے جوڑتے ہوئے سیاسی فائدے اٹھائے گئے اس کی وضاحت کرنا ہے۔