جامعہ کے طالب علم پولیس کاروائی میں جس کے ایک انکھ کی بینائی چلی گئی’یہاں پر آکر غلطی کی‘۔

,

   

منہاج الدین ایک ایل ایل ایم کے طالب علم ہیں‘ اب وہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اپنے آبائی مقام بہار میں واپس چلے جاناچاہتے ہیں کیونکہ یہاں پر یونیورسٹی کیمپس میں وہ خود کوغیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں

نئی دہلی۔ قومی راجدھانی میں قانون کی پریکٹس شروع کرنے کا خواب دیکھ کر پچھلے سال محمد منہاج الدین دہلی ائے تھے مگر 15ڈسمبر کے روزان کے ایک آنکھ کی بینائی مبینہ طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں پولیس کاروائی کے دوران چلی گئی

۔منہاج الدین ایک ایل ایل ایم کے طالب علم ہیں‘ اب وہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اپنے آبائی مقام بہار میں واپس چلے جاناچاہتے ہیں کیونکہ یہاں پر یونیورسٹی کیمپس میں وہ خود کوغیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ قانون اور نظم ونسق میں ان کاجو یقین تھا وہ دہل گیاہے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ”میرا کیاقصور تھا؟ میں قدیم لائبریری کے ریڈینگ روم جو ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ کے لئے محفوظ ہیں وہا ں پڑھائی کررہاتھا۔

پولیس کے لائبریری میں داخل ہونے کی اطلاع کے ساتھ ہم نے ریڈنگ روم اندر سے بند کردیاتھا‘ مگر انہوں نے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور طلبہ نے بے رحمی کے ساتھ لاٹھی چارج شروع کردیا“۔

ڈسمبر15کے روز پولیس یونیورسٹی کیمپس میں بھاری تعداد میں داخل ہوئے تاکہ توڑ پھوڑ میں ملوث باہری لوگوں کو پکڑ سکے‘ مگر طلبہ پر لاٹھی چارج سے پولیس نے انکار کیاہے۔

منہاج الدین نے کہاکہ طلبہ نے پولیس گوہار لگائی اورکہاکہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں ملوث نہیں ہیں مگر انہوں نے کوئی توجہہ نہیں دی۔ انہوں نے دعوی کیاکہ”انہوں نے دعوی کیاہے کہ ”انہوں نے جان بوجھ کر لائبریری میں داخل ہوئے۔

احتجاج گیٹ نمبر 7کے باہر چل رہاتھا جو سڑک کے دوسری جانب ہے۔ میں نے احتجاج میں حصہ نہیں لیاتھا مگر بے رحمی کے ساتھ مجھے پیٹا گیا“۔انگلیوں میں بھی انہیں چوٹیں ائی ہیں۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ڈاکٹر س نے کہا ہے کہ دوسری آنکھ میں بھی اس کا انفکشن ہوسکتا ہے۔

لہذا میں اپنے ہاتھوں اور اردگر د صفائی رکھنے کے لئے دوا کااستعمال کررہاہوں“۔منہاج الدین نے کہاکہ جن حالات سے وہ گذرا ہے اس کے بعد وہ کسی کو مشورہ نہیں دے گا کہ لائبریری میں جاکرپڑھائی کریں۔

۔انہوں نے کہاکہ ”واقعہ کے بعد سے میں کیمپس میں نہیں ہوں‘ میں ڈرا ہوا ہوں۔ میں بناء خوف کے لائبریری میں جانے سے قاصر ہوں۔ میں اپنے ہی کیمپس میں خود کوغیرمحفوظ محسوس کررہاہوں“۔

بہار سے یہاں پر ائے ہوئے مہناج کے والدین انہیں واپس لے کرجانا چاہتے ہیں مگر انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔انہوں نے کہاکہ ”میں اپنی پی ایچ ڈی کی پڑھائی پوری کرلوں پھر اپنے آبائی مقام پر لاء کی پریکٹس شروع کروں گا۔

قبل ازیں میری خواہش تھی کہ یہاں پر پریکٹس کروں کیونکہ یہاں پر سپریم کورٹ اور چھ ضلعی عدالتیں او ربہت سارے مواقع ہیں۔ مگر اس کے بعد میں یہاں پر کام کرنا نہیں چاہتاہوں“۔

مہناج پچھلے سال دہلی ائے تھے اور آج ”اپنے اس فیصلے پر انہیں پچھتاوا ہورہا ہے“ کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں ”میں نہیں سمجھتا تھاکہ دہلی اس قدر غیرمحفوظ شہر ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آکر میں نے بڑی غلطی کی ہے“