جج کے فرقہ ورانہ تبصرے پر وکلا ء نے مدارس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام مکتوب تحریر کیا۔

,

   

مذکورہ نمائندگی پر 64سینئر وکلا نے دستخط کی جس میں آر ویاگیائی‘ اننا ماتھیو‘ سدھا رام لنگم‘ کے پریما‘ بی انیتا‘ اور اکھیلا آر ایس کے نام شامل ہیں

چینائی۔مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ویدیاناتھن کی جانب سے عیسائی اداروں اور ”تبدیلی مذہب“ کے متعلق متنازعہ ریمارک کے ایک حصہ سے دستبرداری اختیار کرنے پر رضامندی کا

انہوں نے اظہار کیا‘ اور مبینہ طور پر مخالف جہیز خواتین قانون کا خواتین کے جانب سے استعمال کیاجانے

کا ادعا کرنے کے ایک روز بعد سینئر وکلا کے ایک گروپ نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وجئے کے تھالی مارنی کو ایک مکتوب تحریر کیا او رمانگ کی کہ عیسائی اداروں اور خواتین سے متعلق کوئی بھی معاملہ جسٹس ویدیاناتھن کی بنچ کے سپرد نہیں کیاجانا چاہئے۔

مذکورہ نمائندگی پر 64سینئر وکلا نے دستخط کی جس میں آر ویاگیائی‘ اننا ماتھیو‘ سدھا رام لنگم‘ کے پریما‘ بی انیتا‘ اور اکھیلا آر ایس کے نام شامل ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ اس طرح کا طرز عمل ”ایک جج بننے والے شخص کے لئے غیرمعمولی ہے جس نے دستو ر او رقانون کی پاسداری کا حلف لیاہے“۔

اگست16کے روز جب ایک جنسی ہراسانی کی داخلی کمیٹی کی کاروائی جو مدراس عیسائی کالج کے فیکلٹی ممبر س کے خلاف تھی کی سنوائی جسٹس ویادیاناتھن کررہے تھے نے

اپنے احکامات میں کہاکہ ”یہاں پر عام احساس والدین بالخصوص طالبات (کے)ان اداروں میں جہاں پر لڑکے او رلڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہیں اپنے بچوں کو انتہائی غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں“۔

جسٹس ویدیاناتھن نے کہاکہ حالانکہ عیسائی اداروں ”بہتر تعلیم کو چھوڑ کر“ یہاں پر ”ان پر بے شمار الزامات (عیسائی مشنری) کے خلاف ہیں جو دیگر مذاہب کے لوگوں کی تبدیلی مذہب کو یقینی بنارہے ہیں۔

منگل کے روم جج نے عیسائی اداروں کے لئے حوالے سے پیش کئے گئے فیصلے کے ایک حصہ سے دستبرداری کے لئے رضامندی کا اظہار کیاہے۔

انہوں نے اسی احکامات کے متنازعہ دیگر حصہ سے دستبرداری کا فیصلہ نہیں کیاہے۔