مسلم کمیونٹی کے ایک سے زائد والدین نے اساتذہ کے تئیں اپنے ناراضگی کا اظہار کیاہے جو مسلم طلبہ کو خانگی اسکولوں میں بھیجنے کا کم رحجان رکھتے ہیں۔
جرمنی میں مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ کے دعوی پر مشتمل ایک حالیہ رپورٹ کے بعد حقوق گروپس کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے طلبہ کو ملک کے اسکولوں میں مسلسل امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
جرمنی میں مسلم طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک زیادہ تر لڑکیوں کے خلاف کم توقعات او رحوصلہ شکنی کا باعث بنا ہے۔مسلم کمیونٹی کے ایک سے زائد والدین نے اساتذہ کے تئیں اپنے ناراضگی کا اظہار کیاہے جو مسلم طلبہ کو خانگی اسکولوں میں بھیجنے کا کم رحجان رکھتے ہیں۔
اس طرح کے مسائل طلباء کو اپنی صلاحیتوں کے ادارک نہیں کرنے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ وہ پیشہ وارانہ کورسزکرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ماہرین کی کونسل برائے آن انٹگریشن اینڈمائیگریشن (ایس وی آر)نے اس اکتوبر کی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلم طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک بہت زیادہ ہے۔
ڈائرکٹر جرمن انسٹیٹیوٹ برائے انسانی حقوق ڈاکٹربیٹا روڈلف نے کہاکہ ”ہم نے دیکھا اس خطہ میں ہمیں کاروائی کرنے کی ضرورت ہے اور میں نے مشاہدہ کیاہے کے حالات میں تبدیلی آرہی ہے“۔
انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیاکہ جرمنی میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اس سال کی رپورٹ میں اس مسئلے کواجاگر نہیں کیاگیا ہے۔
اپنے سروے کی بنیاد پر مذکورہ تنظیم نے کہا ہے کہ 48فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اسلام جرمنی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے‘ جبکہ29فیصد کا خیال ہے کہ ملک میں اسلام کے رواج پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔
تنظیم نے مزیدکہاکہ جرمن حکام کو مسلم امیدواروں اور تنظیموں کی نگرانی چاہئے‘ جبکہ جواب دہندگان میں صرف16فیصدنے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔
دوسرا سب سے بڑا ملک جرمنی ے جہاں پر مسلم تارکین وطن کی آبادی ہے(مغربی یوروپ میں 5ملین)اس کے باوجود ملک میں اس کمیونٹی کے خلاف662نفرت انگیزجرائم رپورٹ کئے گئے ہیں۔
گذشتہ سال مسلم مخالف واقعات میں کم ازکم46مساجد کونشانہ بنایاگیاجبکہ 17حملے اس وجہہ سے لوگوں پر کئے گئے ہیں