جمال مصطفی ﷺ

   

ڈاکٹر سید حسام الدین
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے کامل مظہر اور ظاہری و باطنی حسن و جمال کے بے مثل اور بے مثال پیکر ہیں ۔ آپ جیسا کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی ہوگا ۔ امام قاضی عیاض فرماتے ہیں ’’رسول معظم ﷺ کا جو فضل و کرم ہے اور جو کمالات آپ کو عطا فرمائے گئے ہیں عقلیں اُن کو سمجھنے اور زبانیں اُنھیں بیاں کرنے سے قاصر ہیں ‘‘۔
امام نبہانی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی حقیقت کو کماحقہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔
آپ ﷺ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میری حقیقت کو سوائے میرے رب کے کسی نے بھی کماحقہ نہ جانا ۔
صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کا صرف ظاہری روپ (عکس) دیکھا تھا ۔ آپ ﷺ کی حیثیت کو نہ پاسکے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کیا ابوبکر صدیقؓ نے بھی نہیں دیکھا ؟
فرمایا ہاں ۔
انھوں نے آپ ﷺ کو کماحقہ نہیں دیکھا ۔

(علامہ سید شاہ تراب الحق قادری جمال مصطفی ۲ ص ۲۶)
آنحضرت ﷺ کے جمال کے بارے میں امام قسطلانی نے مواہب لدینہ میں ایک حدیث بیان فرمائی جس میں حضور ﷺ کہتے ہیں ’’میں حق تعالیٰ کے جمال کا آئینہ ہوں ‘‘ ۔
اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں حضور ﷺ کا چہرہ انور اللہ تعالیٰ کے جمال کا آئینہ اور لامحدود و لامتناہی انوار الٰہی کا مظہر ہے ۔ ( شمائل ترمذی)
حضور ﷺ معبود حقیقی کی ذات و صفات کا کامل مظہر تھے ۔ آپ کا جمال ظاہری و باطنی بے مثال ہے ۔ آپ سا نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ پیدا ہوگا ۔
آنحضرت ﷺ کی تعریف و توصیف آپؐ کے حسن و جمال کے بیان میں اس امر کی احتیاط ضروری ہے کہ رسالتؐ کے دائرے اُلوہیت سے ملنے نہ پائیں۔ بعض لوگ آپؐ کی مدح میں حد سے گذر جاتے ہیں اور بعضے مرتبہ رسالت سے کماحقہ انصاف نہیں کرپاتے ۔ اس طرح دونوں صورتوں میں افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس ضمن میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں : ’’افراط و تفریط دونوں ناجائز ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے فضائل و کمالات کا انکار کرنا تفریط اور آپ کو نعوذباللہ خدا یا خدا کا بیٹا کہنا افراط ہے ‘‘ ۔

آپ ﷺ نے اپنی بشریت کا اس طرح اعلان کیا : ’’إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُم‘‘ ( میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں )۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کو ایک بشر کے روپ میں پیدا کیا تھا ۔ آپ کی زندگی اور روزمرہ کے اعمال ایک عام آدمی کی طرح تھے ، اس کے باوجود آپؐ ایک عام آدمی سے ہر ہر لحاظ سے جدا تھے ۔ خواہ آپ کا جمال ظاہری ہو یا باطنی۔
امام المحدثین شیخ عبدالحق دہلوی آنحضرت ﷺ کے حسن و جمال کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’حضور ﷺ سراقدس سے لیکر قدم مبارک تک مجسم نور تھے ۔ آپ ﷺ کے جمال باکمال کو دیکھنے سے آنکھیں چندھا جاتیں آپ ﷺ کا جسم انور ماہتاب و آفتاب کی طرح روشن تھا ۔ اگر حضور ﷺ بشری لباس میں نہ ہوتے تو آپ ﷺکی طرف نظر اُٹھاکر دیکھنا اور آپ ﷺکے حسن و جمال کا ادراک ہرگزم ممکن نہ ہوتا ۔ ( مدارج النبوۃ ج ۱ )
اس مضمون کو حضرت جلیل مانکپوری نے اپنے اس شعر میں بہترین انداز میں بیان کیا ہے ؎
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی بات نہیں
آنحضرت ﷺ کے حسن و جمال کا بیان انسانی قدرت کے باہر ہے اللہ تعالیٰ نے سرکار دوعالم ﷺ کو نور سے پیدا فرمایا چنانچہ آپ نے فرمایا ’’اول ما خلق اللہ نوری‘‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔ (جمال مصطفی )
سرکاردوعالم ﷺ کے بے مثال حسن و جمال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ سا کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا ۔

صحابہ کرام کے بیان کی روشنی میں
حضور سرورکائنات ﷺ کا حسن مبارک
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور اکرم ﷺ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا گویا آپ کے رخسار مبارک میں سورج تیر رہا ہے جب آپ مسکراتے تھے تو دیواروں پر اس کی چمک پڑتی تھی ۔ (مدارج النبوۃ ) ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے دیکھنے والوں کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور عظیم ، بزرگ اور دبدبہ والا تھا ۔ آپؐ کے حسن و جمال کے بارے میں حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں ’’میں نے رسول معظم ﷺ سے زیادہ حسین کوئی نہ دیکھا ‘‘ (مسلم )
حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں ’’ میں نے آقا و مولیٰ ﷺ کو چاندنی رات میں دیکھا آپ سرخ دھاری دھار لباس زیب تن کئے ہوئے تھے میں نے کبھی چاند کو دیکھا اور کبھی آقا و مولیٰ ﷺ کو آخرکار میں نے یہی فیصلہ کیا کہ نورمجسم ﷺ چاند سے بہت زیادہ حسین و خوبصورت ہیں۔
جمال مصطفیؐ قرآن مجید کی روشنی میں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپؐ کے ایک ایک عضو کی صفت بیان فرمائی ۔ کلام الٰہی میں شمس و ضحی کا ذکر آیا ہے ۔ بعض مفسرین نے ضحی سے نبی کریم ﷺ کا چہرہ اقدس اور لیل سے آپ کی مبارک زلفیں لی ہیں۔
سورہ بقرہ آیت ۱۴۴ میں حضورؐ کے چہرہ اقدس کا ذکر فرمایا ’’ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا ‘‘ ۔
سورہ؍ شعراء آیت ۱۹۴ میں آپ کے قلب مبارک کا یوں ذکر فرمایا ’’اسے روح الامین لے کر اُترا تمہارے دل پر ‘‘۔
سورۃ البقرہ آیت ۹۷، سورہ الشوری، آیت ۲۴، سورۃ الفرقان آیت ۳۲، سورہ والنجم آیت ۱۱ میں بھی حضور ﷺ کے قلب اطہر کا ذکر فرمایا ۔ سورۃ القیامہ آیت ۱۶ میں آپ کی زبان اقدس کا ذکر فرمایا ’’تم یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو حرکت نہ دو ‘‘ ۔ سورۃ الدخان آیت ۵۸ میں بھی آپ کی زبان کو ترجمان حق کہا گیا ۔
سورۃ التوبہ آیت ۶۱ میں کان مبارک کا ذکر فرمایا ’’ تم فرماؤ تمہارے بھلے کیلئے کان ہیں ‘‘ ۔
سورہ والنجم آیت ۱۷ میں آپ کی چشمان مبارک کا ذکر فرمایا ’’آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی ‘‘ ۔
سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۹ میں آپ کے دست اقدس ااور گردن مبارک کا ذکر فرمایا ’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھئے ‘‘ ۔ سورہ الانشراح کی پہلی آیت میں حضور ﷺ کے مبارک سینے کا ذکر فرمایا ’’کیا ہم نے تمہارا سینہ کشاہ نہ کیا ‘‘ ۔
مذکورہ آیات میں حضورؐ کے اعضاء مبارکہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بعض مفسرین نے قرآن مجید میں ’’یٰسین‘‘ و طٰہٰ ‘‘ سے مراد حضور سرورکائناتؐ کی ذات اقدس ہے ۔ بہرحال ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام حُسن صورت اور حُسن سیرت میں تمام نبیوں سے جدا ہیں۔
ح