جموں اور کشمیر‘ سلفی کے ساتھ ’’ تبدیلی ‘‘ کی آواز‘ شاہ فیصل کی پہلا قدم

,

   

سال 2009میں سیول سروس امتحان میں ٹاپ کرنے کے بعد 35سالہ شاہ فیصل نے قومی سرخیاں بٹوری اور ایسا کرنے والے کشمیر کے پہلے امیدوار بھی بنے۔ بطور ائی اے ایس افیسر انہوں نے اپنے دل ودماغ کی بات سوشیل میڈیاپر کہی‘ جس کی وجہہ سے ہزار و ں کشمیری نوجوان ان سے جڑنے لگے

سری نگر۔ کپواڑہ کے قدیم بنگلے کے اندر ایک نئے سیاست داں نے وادی کی حساس سیاست کے میدان میں اپنا پہلا قدم رکھا۔ بھورے رنگ کا پہران پہنے ‘ شاہ فیصل نے اپنے آبائی ضلع سے جس کو وہ ’’ تبدیلی کی تحریک‘‘ کہتے ہیں شروع کی‘ جہاں سے انہوں نے سیول سروس کا الوداع کہہ کر پولٹیکل افیسر بننے کا اعلان کیاتھا جس کی وجہہ سے کافی ہنگامہ بھی ہوا۔ شاہ صوفے پر اپنے پیراہن میں ہاتھ ڈالے بیٹھے ہوئے تھے۔

ساتھ میں ایک عدد پولیس جوان بھی کھڑا تھا‘ جبکہ سارے کمرہ نوجوانوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ان سے ہاتھ ملاتے اور تصویریں لیتے ‘ اور انہیں’’ شاہ صاحب‘‘ کہتے۔

سری نگر میں ایک این جی او چلانے ‘ اور 95کیلومیٹر کی مسافت طئے کرکے فیصل کی میٹنگ تک پہنچنے والے عاصم نے کہاکہ’’ہماری امیدوں او رجذبات کے ساتھ ہم ان کے پاس ائے ہیں۔ بطور بیوروکریٹس ہر کسی نے انہیں دیکھا ہے‘ ہر کوئی ان کی کہانی جانتا ہے۔

وہ ہم میں سے ایک ہے اور وہ ہماری جدوجہد کے لئے جانے جاتے ہیں‘‘۔سال 2009میں سیول سروس امتحان میں ٹاپ کرنے کے بعد 35سالہ شاہ فیصل نے قومی سرخیاں بٹوری اور ایسا کرنے والے کشمیر کے پہلے امیدوار بھی بنے۔ بطور ائی اے ایس افیسر انہوں نے اپنے دل ودماغ کی بات سوشیل میڈیاپر کہی‘ جس کی وجہہ سے ہزار و ں کشمیری نوجوان ان سے جڑنے لگے۔

لہذا جب انہوں نے بیوروکریسی کو چھوڑ کر سیاست میں شمولیت اختیار کی تو کئی لوگوں نے اس کو فطری کہا۔موجودہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے کا ان کا اعلان ‘ توقع ہے کہ اپنی ذاتی تنظیم کاوہ اعلان کریں گے۔

تاہم فیصل کا سرگرم سیاست میں داخلہ کپواڑہ کے دیگر نوجوان لیڈروں میں تقابل کا سبب بن رہا ہے۔ جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے سجاد لون جو ان کے مخالف ہوسکتے ہیں۔

فیصل کی طرح لون نے بھی مرکزی سیاست میں اسی طرح کی شروعات کی تھی‘ علیحدگی پسند سیاست کو دور رہ کر 2009میں لوک سبھا کا الیکشن لڑا۔

فیصل کا موازنہ سجاد کے والد عبدالغنی لون سے بھی کیاجارہا ہے کپواڑہ گاؤں کے نوجوان وکیل‘ جنھوں نے 1967میں الیکشن جیتا تھا۔

تاہم اس کے بعد بہت سارے لوگ مایوس بھی ہوئے سجاد نے بی جے پی کے ساتھ جانے کا انتخاب کیا۔پیپلز کانفرنس کے برعکس فیصل کے لئے دوسرا چیالنج مید ان میں سیاسی تنظیموں کا فقدان بھی ہے۔انہو ں نے اپنے حامیوں سے کشمیر کو مسائل کے حل کو یقینی بنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ وہ حریت کے بجائے مرکزی سیاست میں شامل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا‘ اور حالیہ سیاست بشمول مغربی بنگال کی چیف منسٹر او رمرکز کے درمیان ٹکراؤ پر بھی انہوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ بات کی۔

روم نوجوانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ لوگ آتے جارہے تھے‘ ان کی ٹیم کے ممبر نے مزاحیہ انداز میں کہاکہ’’انہو ں نے دس لاکھ سلفی پوسٹ کئے ہیں‘‘