جموں و کشمیر میں محروس قائدین کی رہائی کا مطالبہ ، اپوزیشن کا احتجاج

,

   

وادی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں اب بھی تحدیدات ، بازار بند ، حقیقی صورتحال کا صحافی شہلا راشد کا تجزیہ

نئی دہلی ۔ 22اگست ( سیاست ڈاٹ کام ) اپوزیشن پارٹیوں نے بشمول کانگریس ، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے نے جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ سیاسی قائدین کو جنہیں جموں و کشمیر میں حراست میں لے لیا گیا ہے فوری رہا کردیا جائے ۔ پی چدمبرم کے فرزند کارتی چدمبرم نے بھی احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کی ۔ کانگریس قائد غلام نبی آزاد ، سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری ، سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ ، سماج وادی پارٹی قائد رام گوپال یادو ، لوک تانترک جنتادل کے شرد یادو ، آر جے ڈی کے منوج جھا اور ترنمول کانگریس کے دنیش ترویدی نے بھی احتجاج میں حصہ لیا ۔ ایک قرارداد احتجاج کے دوران منظور کی گئی اور اپوزیشن پارٹیوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے سنگین نتائج نکلیں گے ۔ انہوں نے ریاستی عوام سے مشاورت کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ وہ اس مشکل وقت میں جموں وکشمیر عوام کے ساتھ ہیں ۔ مرکزی حکومت نے مکمل مواصلاتی امتناع عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیول سوسائٹی کے ارکان اور بے قصور شہری جن کی تعداد ہزاروں میں ہیں شدید تشویش کا شکار ہیں ۔ آزادی تقریب پر اور حق اجتماع پر سنگین پابندیاں عائد کی گئی ہیں ۔ ایسی کارروائیاں بنیادی حقوق کی طمانیت کے خلاف ہے جن کا دستور ہند میں تیقن دیا گیا ہے اور اصل دھارے کی سیاسی پارٹیاں اس کے خلاف احتجاجی قرارداد منظور کرتی ہیں ۔ جموں و کشمیر میں حسب معمول حالات ، مواصلاتی خدمات کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجیوں نے نعرے لگائے ۔ نیشنل کانفرنس جس کے قائد فاروق اور عمر عبداللہ ان قائدین میں شامل ہیں جن کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں 5اگست سے حراست میں لے رکھا ہے ۔

انہیں بھی احتجاجی مظاہرے میں شرکت کیلئے رہا کیا گیا تھا ۔وادی کشمیر میں راستوں کی رکاوٹیں ہٹائی جارہی ہے اور نقل و حرکت کی آزادی بحال کی جارہی ہے لیکن بازار اب بھی بند ہیں ۔ موبائیل اور انٹرنیٹ خدمات جمعرات کے دن مسلسل 18دن سے بند ہیں ۔ عہدیداروں نے کہا کہ صورتحال پُرامن ہیں اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ کہیں بھی پیش نہیں آیا ۔ صورتحال کی بہتری کے پیش نظر تحدیدات اٹھائی جارہی ہیں ۔ سرکاری بسیں سڑکوں سے غائب رہیں تاہم بین ضلعی ٹیکسی کے ذریعہ سفر پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ۔ سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹائی جارہی ہیں ۔ سرکاری عہدیداروں کے بموجب دکانیں اور دیگرتجارتی ادارے آج بھی بند رہے ، حالانکہ کسی نے یا علحدگی پسند گروپس نے بند کی اپیل نہیں کی تھی ۔ نامور صحافی شہلا راشد نے صورتحال کا اپنے طور پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال بتدریج بہتر ہوتی جارہی ہے ، تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اپنے دعوے سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے ترجمان کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں۔ اگر آپ کو انتخابات کے پیش نظر صورتحال سے واقفیت حاصل کرنا ہوتو بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر سے رجوع کریں ۔