جموں و کشمیر و ہریانہ کے انتخابات

   

یوں عوام اُٹھے ہیں عزم زندگی لیکر
موت جن کے آگے ہے آج سرجھکائی سی
ملک میں لوک سبھا انتخابات کے بعد ماحول پرسکون ہوگیا ہے ۔ تاہم الیکشن کمیشن نے آج ایک بار پھر انتخابی بگل بجاتے ہوئے جموں و کشمیر اور ہریانہ کی اسمبلیوں کیلئے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا ہے ۔ اس بار دو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ہریانہ میں جہاں ایک ہی مرحلے میں یکم اکٹوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ 4 اکٹوبر کو نتائج کا اعلان ہوگا ۔ اسی طرح جموں وکشمیر میں تین مارحل میں پولنگ ہوگی ۔ یہاں 18 ستمبر 25 ستمبر اور یکم اکٹوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور ہریانہ کے ستاھ چار اکٹوبر کو رائے شماری ہوگی اور نتائج کا اعلان کیا جائیگا ۔ جموں و کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے تو 2019 میںدفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد پہلی مرتبہ اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں بانٹ دیا گیا تھا ۔ اب دوبارہ ریاست کاد رجہ بحال کرتے ہوئے وہاں انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے ۔ جموںو کشمیر کے انتخابات ہر حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں عوامی رائے سے عوامی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے جو جمہوری عمل کا حصہ ہے اور ایسا ہمیشہ ہونا چاہئے ۔ جہاں تک دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد پیدا ہوئے حالات کا سوال ہے تو حکومت نے اس معاملے میں کئی دعوے کئے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی جموں و کشمیر کی صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے ۔ صرف حکومت اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے اور اپنے مفادات کی تکمیل میں کامیاب ہوسکتی ہے تاہم عوام کے حالات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے ۔ ریاست میںعوام جن حالات میں زندگی دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل گذار رہے تھے اب بھی ان ہی حالات کا شکار ہیں اور ان کو حکومت کے فیصلے یا مابعد اقدامات سے کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی ہے ۔ ان کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ دفعہ 370 کی تنسیخ سے حکومت کے کیا مفادات کی تکمیل ہوئی ہے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا اور صرف حکومت اس کا جواب دے سکتی ہے ۔ بظاہر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی ہے ۔
جہاں تک ہریانہ کا سوال ہے تو ہریانہ میں نائب سنگھ سائنی کی حکومت عملا اقلیت میں آگئی تھی ۔ بی جے پی اور اس کی تائید کرنے والے کچھ ارکان اسمبلی نے حکومت کی تائید سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اوراپوزیشن کانگریس کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ حکومت اقلیت میں آگئی ہے ۔ یا تو اسے سبکدوش کردیا جائے یا پھر ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کو کہا جائے تاہم ریاستی گورنر نے ایسا کچھ نہیں کیا اور حکومت کو عملا اقلیت میں رہنے کے باوجود اپنی معیاد کی تکمیل کا موقع فراہم کیا ۔ ریاست میں جو سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں اور بی جے پی اور اس کی حلیف جے جے پی میں دوریاں ہوگئی تھیں اس کے بعد لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں کانگریس پارٹی کو خاطر خواہ عوامی تائید حاصل ہوئی تھی ۔ اس ساری صورتحال کے اسمبلی انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کانگریس پارٹی ریاست میں اقتدار پر واپسی کے تعلق سے پرامید ہے ۔ عام آدمی پارٹی بھی ہریانہ میں اپنا وجود رکھتی ہے تاہم وہ انتخابات پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ اگر کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مابین ہریانہ میں مفاہمت ہوتی ہے اور جے جے پی بھی کانگریس کے ساتھ آجاتی ہے تو پھر ریاست میں سیاسی تبدیلی یقینی کہی جاسکتی ہے ۔ جے جے پی کا ریاست میں خاصا اثر ہے اور اس نے چار سال سے زائد عرصہ تک حکومت میں حصہ داری بھی حاصل کی تھی ۔ ایسے میں اگر وہ این ڈی اے کی بجائے انڈیا اتحاد کا حصہ بنتی ہے تو نتائج پرا ثر ضرور ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کیلئے ریاست میں کوئی حلیف تلاش کرنا آسان نہیں رہے گا ۔
یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مہاراشٹرا کیلئے بھی انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جائیگا تاہم ایسا نہیں ہوا ۔ الیکشن کمیشن کے پیش نظر کیا کچھ حالات ہیں یا کیا وجوہات ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تاہم مہاراشٹرا میں رواں سال کے آخر تک انتخابات کے انعقاد کیلئے وقت ضرور ہے ۔ اب جبکہ جموں و کشمیر اور ہریانہ میں شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے تو ایسے میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سابقہ تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنائے ۔ غیرجانبداری کے ساتھ قوانین پر عمل آوری کو یقینی بنائے اور انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے ۔