مرکزی زیر انتظام علاقوں جموںو کشمیر پر مرکزی حکومت نے عملا ایک پہل کی ہے اور ریاست کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ آج وزیر اعظم نریندر مودی کی قیامگاہ پر ایک اجلاس منعقد کیا گیا ۔ یہ اجلاس کسی ایجنڈہ کے بغیر منعقد ہوا تھا اور جموںو کشمیر کے چار سابق چیف منسٹروں نے اس میںشرکت کی ہے ۔ یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ مرکزی حکومت اس اجلاس میں کیا کچھ مسائل شامل کرنا چاہتی ہے اور ریاستی جماعتوں کیلئے کیا ذمہ داری سونپنا چاہتی ہے ۔ ریاستی جماعتوں نے بھی کسی ایجنڈہ کے تعین کے بغیر اپنے مطالبات کے ساتھ اجلاس میں شرکت کی ہے ۔ ریاستی جماعتوں کا مطالبہ یہی اہمیت کا حامل تھا کہ جموںو کشمیر کیلئے مکمل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے ۔ مرکزی حکومت کے ذرائع سے جو معلومات ہوئی ہیں ان کے مطابق جموںو کشمیر میں حلقہ جات کی از سر نو حد بندی اور متعلقہ امور پر تبادلہ خیال اس اجلاس میں ہونا تھا ۔ مرکز کا یہ موقف ہے کہ ریاست کا درجہ بحال کیا جائیگا تاہم اس کیلئے ابھی مناسب وقت نہیں آیا ہے ۔ جس وقت سے جموں و کشمیر میں خصوصی موقف فراہم کرنے والے دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس کے بعد سے ریاستی جماعتوں کے ساتھ مرکز کی یہ پہلی کوئی باضابطہ مشاورت تھی ۔ اجلاس میں کیاکچھ ہوا ہے یا آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے اس کا تو کوئی علم نہیں ہوپایا ہے لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مرکزی زیر انتظام علاقوں میںسیاسی سرگرمیوں کو بحال کرنے کیلئے مرکز نے اپنی جانب سے ایک پہل کی ہے اور تمام ریاستی جماعتوں نے اس پہل کو قبول بھی کیا ہے ۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے ۔ سیاسی سرگرمیوں کو بحال کرتے ہوئے ریاست کی صورتحال کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور یہی سب کا مقصد بھی ہونا چاہئے ۔ مرکز کی جانب سے جو پہل ہوئی ہے اس کو کسی ایک مسئلہ تک محدود بھی نہیں کیا جانا چاہئے اور دونوں مرکزی علاقوں اور وہاں کے عوام کے جو اصل اور بنیادی مسائل ہیں ان کی یکسوئی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ یہاں کے عوام کو بھی اعتماد میں لینے کیلئے مرکزی حکومت کو پہل کرنی چاہئے ۔
جموں و کشمیر میں جو حالات ہیں ان کا پوری طرح سے کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوسکتا سوائے مقامی سیاسی جماعتوں اور وہاں کے عوام کے ۔ ان دونوں کی رائے حاصل کرتے ہوئے مرکز کو فراخدلی کے ساتھ حالات کو بہتر بنانے اور عوام کو راحت پہونچانے کی ضرورت ہے ۔ جموں و کشمیر کے ماحول کو بہتر بنانے پربھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ ہر گوشے کو اعتماد میں لیتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرنے کی سمت بھی پہل ہونی چاہئے ۔ دونوں علاقوں کی ترقی کیلئے جامع منصوبے بناتے ہوئے وہاں روزگار کے مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔ نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح سے کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے اسی طرح سے کشمیری عوام بھی اٹوٹ ہندوستانی ہیں۔ اس اعتماد کی بحالی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اس پر بھی خاصی توجہ اور جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کا مسئلہ ہے اس کا جامع منصوبہ مرکزی حکومت کے پاس موجود ہوگا جس پر ریاستی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا عمل شروع ہوا ہے ۔ اس میں بھی جغرافیائی اور علاقائی امور کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بالکل بے ہنگم انداز میں از سر نو حد بندی سے گریز کرتے ہوئے عوام میں بے چینی پیدا نہیں کی جانی چاہئے ۔ مرکز کے اقدامات ایسے ہونے چاہئیں جن سے عوام میں اعتماد بحال ہوسکے ۔
دونوں علاقوں کی سیاسی جماعتوں نے اجلاس میںشرکت کرتے ہوئے ایک مثبت پہل کا مثبت جواب دیا ہے اور ان کے اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے بھی مرکز کو کوشش کرنی چاہئے ۔ علاقائی سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے بغیر کسی بھی پہل یا اقدام کو موثر یا کامیاب بنانا آسان نہیں ہوسکتا ۔ یکطرفہ فیصلے علاقہ یا وہاں کے عوام کے مفادات میں نہیں ہوسکتے ۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر علاقوں کی سیاسی جماعتیں ہوں سبھی کو ایک مثبت انداز اور مثبت سوچ کے ساتھ مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ مشاورت کا عمل ابھی تو شروع ہوا ہے ۔ اس کو آگے بڑھانے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس مشاورت کا سلسلہ کہیںرکنا نہیںچاہئے اور مرکز کو سبھی کو اعتماد میں لیتے ہوئے جموں و کشمیر کیلئے ایک نئے دور کو یقینی بنانا چاہئے ۔
