جمعہ کے روز دوکانیں‘ کاروبار اور مارکٹ پوری طرح بند رہیں اور سری نگر کے علاوہ کشمیر کے دیگر شہروں میں سکیورٹی دستوں کی بڑے پیمانے تعیناتی کی گئی تھی
سری نگر۔مذکورہ جموں او رکشمیر انتظامیہ نے جمعہ کے روز لوگوں سے استفسار کیاہے کہ وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں سے نہ گھبرائیں اور اپنے کاروبار کو دوبارہ شروع کریں‘
ریاست کے خصوصی موقف کو برخواست کرنے اور علاقے کو دو مرکز کے زیر اقتدار حصوں میں تقسیم کرنے کے 68دنوں بعد یہ کام کیاگیاہے۔
مقامی روزناموں میں ایک صفحہ کا اشتہار دیاگیا ہے جس میں لوگوں پر زوردیاکہ وہ ”ہمارے جو سب سے بہتر“ ہے وہ فیصلے لیں۔اشتہار میں کہاگیا ہے کہ ”بند دکانیں‘ کوئی عوامی ٹرانسپورٹ نہیں‘ کس کو فائدہ ہورہا ہے؟“۔
جمعہ کے روز دوکانیں‘ کاروبار اور مارکٹ پوری طرح بند رہیں اور سری نگر کے علاوہ کشمیر کے دیگر شہروں میں سکیورٹی دستوں کی بڑے پیمانے تعیناتی کی گئی تھی۔
وہیں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب تھے‘ خانگی گاڑیاں کئی علاقوں میں گشت کرتی ہوئی نظر ائیں۔ اشتہار میں ہے کہ ”ہم آج چوراہے پر کھڑے ہیں۔
کیاہم چاہیں گے ہم پر دباؤ ڈالنے کے لئے دھمکیوں کے قدیم طریقے کار اجازت دیں؟ کیا دھمکیاں او رگمراہ کن پروپگنڈے کام ائیں گے یا پھر ہم موثر فیصلے جو ہمارے لئے بہتر ہوں وہ لیں گے؟“۔
مرکز کی جانب سے 5-6اگست کے روز جموں او رکشمیر سے ارٹیکل 370کی برخواست اور ریاست کو دو یونین ٹریٹریوں جموں اور کشمیر اور لداخ‘میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے بعد سے کشمیر وادی میں کمیونکشن پوری طرح منقطع کردیاگیاتھا۔
اس کے علاوہ اس کے بعد سے سینکڑوں لوگ جس میں نوجوان‘ کاروباری‘ وکلاء‘ علیحدگی پسند اور یہاں تک مرکزی دھاری کی سیاسی شخصیتوں کو بھی محروس رہا رکھا گیا ہے
۔ تاہم حکومت نے دہشت گردوں پر دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیااور عوام پر زوردیاہے کہ وہ ان کے ”دباؤ“ میں نہ ائیں