جمہوریت کو کچلنے کی آخری کوشش

   

Ferty9 Clinic

اتنا مجبور نہ کر مالک مختار مجھے
کہ امانت نہ تری مجھ سے سنبھالی جائے
جمہوریت کو کچلنے کی آخری کوشش
کیا ہندوستان میں اب احتجاج کرنا بھی غیر قانونی ہوجائیگا ؟ ۔ کیا ملک کے دستور میںاحتجاج کا حق نہیںدیا گیا ہے ؟ ۔ اب ایسا لگنے لگا ہے کہ ہندوستان میںہندوستانی شہریوں ہی کو احتجاج کے حق سے محروم کرنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اورا یسے قوانین نافذ کئے جانے لگے ہیںجن کے ذریعہ عوام کو ان کے احتجاج کے حق سے محروم کیا جائیگا ۔ ایک قانون کو نافذ کرنے کے نام پر دوسرے قوانین اور جمہوری حقوق کو تلف کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ ملک کی دو ریاستوں اترکھنڈ اور بہار میں پولیس کی جانب سے باضابطہ احکام جاری کئے جاچکے ہیں۔ ان احکامات کے مطابق جو کوئی احتجاج کریگا اسے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کریگا ۔ اسے پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائیگا ‘ اسے بینکوں سے قرضہ جات نہیں ملیں گے ۔ اسے سرکاری ملازمت کے حق سے محروم کردیا جائیگا ۔ اسے اسلحہ کے لائسنس کی اجرائی عمل میں نہیں آئے گی ۔ پٹرول پمپ یا گیس ایجنسی کی ڈیلر شپ نہیں مل پائے گی ۔ حکومت کی امداد والے اداروں میں کنٹراکٹ کی بنیاد پر کوئی کام نہیں دیا جائیگا ۔ اترکھنڈ اور بہار کی پولیس کا کہنا ہے کہ کسی کے سوشیل میڈیا پر اگر کوئی قوم مخالف یا سماج مخالف مواد پایا جائیگا تو پھر اسے ان خدمات سے محروم کیا جائیگا ۔ بہار میں تو صرف احتجاج کرنے اور راستہ روکنے پر عوام کو سرکاری ملازمت ‘ بینک کا قرض وغیرہ نہیں مل پائیگا ۔ حالانکہ دونوں ریاستوں کے ڈائرکٹرس جنرل پولیس نے ان احکام پر تنازعہ پیدا ہونے کے بعد کچھ وضاحت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جن قوانین پر وہ پہلے سے عمل کرتے ہیں آئے ہیں انہیں کو سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان میں کچھ نیا نہیںہے ۔ اس کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ پولیس یہ طئے کریگی کہ کس کے سوشیل میڈیا پر مواد قوم مخالف ہے اور کس کو سرکاری ملازمت مل سکتی ہے یا نہیں یا کس کو پاسپورٹ جاری کیاجائیگا یا نہیں۔ اس طرح کے اقدامات در اصل عوام کو احتجاج سے دور رکھنے کی کوشش ہے اور انہیں دھمکایا اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے دستور اور قانون نے عوام کو دستوری ڈھانچہ میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج کا حق دیا ہے لیکن اس کو اب ختم کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔
جس طرح سے کہا جا رہا ہے کہ سوشیل میڈیا پر قوم مخالف اور سماج مخالف مواد پیش کرنے والوں پر نظر رکھی جائیگی تو یہ بہت ضروری کام ہے ۔ جو لوگ قوم مخالف ہوتے ہیں یا سماج مخالف ہوتے ہیں ان کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ایسی کارروائیاں کرنا بہتر اقدام ہوسکتا ہے لیکن ایسی کارروائیوں کے نام پر عوام کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے در پردہ تیاری کرنا ملک کے دستور اور آئین کے خلاف اقدام ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو کسی بھی مسئلہ پردستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امن کو درہم برہم کئے بغیر احتجاج کا پورا حق دیا ہے ۔ اب تک اس ملک میں عوامی احتجاج کو تسلیم بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ عوام ہی کے احتجاج کا نتیجہ ہوا کرتا تھا کہ حکومتیں اپنے فیصلے تبدیل کرلیتیں یا پھر اپنی پالیسی میں تبدیلیوں کیلئے بھی تیار ہوجاتیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت کسی بھی مخالفت کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ حکومتیں ہٹ دھرمی والا اور آمرانہ طرز عمل اختیار کر رہی ہیں۔ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد عوام کے خلاف ہی اپنی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔ عوامی خواہشات و توقعات کا احترام اور پاس و لحاظ کرنے کی بجائے ان سے آہنی پنجہ سے نمٹا جا رہا ہے ۔ جو لوگ قوانین کی خلاف ورزی کریں یا لا اینڈ آرڈر کو متاثر کریں یا قوم مخالف رویہ اختیار کریں ان کے خلاف کارروائی حق بجانب ہے لیکن اس کی آڑ میں ملک کے ہر شہری کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔
اترکھنڈ اور بہار میں پولیس کی جانب سے جو اعلان کردئے گئے ہیں وہ اس ملک کے دستور میں دئے گئے حقوق کے مغائر ہیں۔ عوام کو جمہوری اور پرامن انداز میں احتجاج کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس عہدیداروں کے ان اعلانات پر ریاستی حکومتوں کو نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ پولیس کو اس طرح کی کارروائیوں سے باز رکھا جانا چاہئے ۔ پولیس بھی عوام اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے اورا س ذمہ داری کی تکمیل کے نام پر حقوق کو تلف کرنے کی کوئی بھی کارروائی قابل قبول ہرگز نہیں ہوسکتی ۔