جناح ، ساورکر اور فرقہ پرست سیاست

   

رام پنیانی

ملک میں جیسے جیسے فرقہ واریت کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے موجودہ حالات میں سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے فرقہ وارانہ علامتوں اور آئیکنس یعنی شبیہات کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے، خصوصی نظریات اور نقطہ نظر کے حامل سیاسی ایجنڈہ کا پیغام دینے کیلئے ان علامتوں اور آئیکنس کو پیش کیا جارہا ہے۔ ان کے بارے میں روشنی ڈالی جارہی ہے۔ ان حالات میں سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستانی سیاست کا جھکاؤ فرقہ وارانہ سیاست کی طرف بڑھتا جارہا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیتیں اس مکروہ کھیل سے قربت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستی ، سیاست اور سیاسی شخصیتوں و پارٹیوں کا سہارا بن گئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ لال کرشن اڈوانی جنہوں نے رام مندر احتجاج (رام رتھ یاترا)، شہادت بابری مسجد، مسجد کی شہادت کے سانحہ کے بعد فرقہ وارانہ بنیاد پر عوام کی تقسیم کے ذریعہ بی جے پی کو سیاسی محاذ پر آگے لایا رام رتھ یاترا اور پھر کارسیوکوں کے ہاتھوں شہادت بابری مسجد کے نتیجہ میں اُن کی شبیہ ایک سخت گیر ہندوتوا لیڈر کی بن گئی، لیکن اڈوانی نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہدۂ وزارت عظمی کیلئے اٹل بہاری واجپائی کا نام پیش کیا۔ اس وقت واجپائی کی شبیہ ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر بنی ہوئی تھی۔ جیسا جیسا وقت گزرتا گیا، اڈوانی نے خود کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ کاٹس راج مندر کے افتتاح کیلئے پاکستان بھی گئے ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر بانی پاکستان محمد علی جناح کے مقبرہ پر حاضری بھی دی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ وہاں کتاب تاثرات میں اڈوانی نے کچھ یوں لکھا ’’دنیا میں کئی ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ پر اپنے نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں، لیکن اس دنیا میں چند ہی لوگ ایسے پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے حقیقت میں تاریخ بنائی ہے۔ ایسے لوگوں میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں اور ان کی شخصیت منفرد رہی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے تاثرات میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے 11 اگست کو محمد علی جناح نے جو خطاب کیا تھا، اس کا حوالہ دیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ جناح بہت ہی سکیولر تھے۔ اس عمل کے دوران انہوں نے اپنی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے مقصد اکھنڈ بھارت کو بھی مجروح کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ سچائی کا حصہ تھا، لیکن ان کی تنظیم آر ایس ایس کیلئے محمد علی جناح کی شخصیت ایک ناپسندیدہ شخصیت رہی ہے اور آر ایس ایس محمد علی جناح کو پاکستان کی تخلیق کی سب سے بڑی وجہ سمجھتی ہے اور انہیں بانی پاکستان کا نام دیتی ہے۔ دورہ پاکستان کے بعد سیاسی اور تنظیمی لحاظ سے بلند قامت اڈوانی کا قد آر ایس ایس نے بالکل گھٹا دیا۔ ان کی اہمیت کو نظرانداز کردیا اور پھر ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جہاں اڈوانی کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور پھر انہیں بی جے پی کے مارگ درشک منڈل (مشاورتی گروپ) تک محدود کردیا گیا۔ اس طرح آر ایس ایس نے جناح کی تعریف پر سزا دیتے ہوئے اڈوانی کو سیاست سے ایک طرح سے دُور کرکے رکھ دیا۔
اب اترپردیش کے ایک اور لیڈر اکھیلیش یادو نے مجوزہ اسمبلی انتخابات کی مہم میں حصہ لیتے ہوئے یہ یاد دلایا کہ سردار پٹیل، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح نے ایک ہی تعلیمی ادارہ سے تعلیم حاصل کی اور یہ تمام بیرسٹر بنے اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا۔ دوسری جانب بی جے پی کا آئی ٹی سیل ہے، اس نے اکھیلیش یادو کی تقریر کا پورا حصہ سوشیل میڈیا پر شیئر کرنے کی بجائے اس ویڈیو کا صرف ایک مخصوص حصہ پیش کیا جس میں ایسے دکھایا گیا جیسے جناح نے ہمیں آزادی دلائی۔ دراصل اکھیلیش یادو نے جو کچھ بھی کہا تھا، اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور یہ سوال کیا جانے لگا کہ کیا ہندوستانی قوم پرست گاندھی، نہرو اور پٹیل کو اسی زمرہ میں رکھ سکتے ہیں جس میں جناح شامل ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ محمد علی جناح کا سیاسی کیریئر جدوجہد آزادی کی تحریک کے دوران اُتار چڑھاؤ سے دوچار رہا۔ جدوجہد آزادی میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لیڈروں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہندوستانی قوم پرستوں کی حیثیت سے شروع کیا اور پھر بعد میں فرقہ وارانہ دائرے میں کود پڑے۔ اس معاملے میں ہم وی ڈی ساورکر کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز انگریزوں کے خلاف انقلابی لیڈر کی حیثیت سے شروع کیا اور پھر بعد میں فرقہ پرست ہندو مہا سبھا کی قیادت کی۔ انہوں نے ہندو مہا سبھا کی قیادت کرتے ہوئے تحریک آزادی کی مخالفت کی اور پھر ’’پھوٹ ڈالو، حکومت کرو‘‘ سے متعلق انگریزوں کی پالیسی کا ایک حصہ بن گئے۔ دوسری طرف خود محمد علی جناح نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا۔ وہ ایک آزاد خیال، جدت پسند اور سکیولر لیڈر تھے لیکن تحریک عدم تعاون کے نظریہ پر گاندھی جی سے اختلافات کے نتیجہ میں کانگریس سے دوری اختیار کی اور پھر مسلم لیگ کی قیادت کرنی شروع کردی۔ آج اگر اکھیلیش یادو، گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل کے زمرہ میں محمد علی جناح کو شامل کررہے ہیں تو ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی دروغ گوئی نہیں ہے بلکہ سچائی ہے۔ اگر کسی کو اس معاملے میں شک و شبہ ہو تو اسے چاہئے کہ تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ وہ یہی چاہیں گے کہ جس کسی کو ان کے بیان پر شبہ ہو یا ان کے بیان کو غلط سمجھتا ہے تو وہ تاریخ کا مکمل مطالعہ کرے ناکہ تاریخ کے بعض حصوں کا مطالعہ کرے۔ جناح نے انڈین نیشنل کانگریس میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا لیکن 1920ء کے بعد جب گاندھی جی نے تحریک عدم تعاون اور ستیہ گرہ شروع کی، جناح کی سیاسی زندگی میں ایک اہم موڑ آیا۔ گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون اور ستیہ گرہ دونوں عدم تشدد پر مبنی تھیں۔ جناح چاہتے تھے کہ برطانوی فریم ورک میں آئین ساز بنے ہیں۔ ان کا یہ بھی احساس تھا کہ تحریک میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے سے غیرضروری ہنگامہ کھڑا ہوگا جبکہ گاندھی اور کانگریس کے دوسرے قائدین عوامی تحریک کو قوم کی تعمیر کے عمل کا ایک حصہ تصور کرتے تھے اور اس عمل میں ہندوستان کو ایک تشکیل پارہی قوم کی حیثیت سے پیش کیا۔
جناح نے 11 اگست کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں یہ بات کہی تھی کہ ریاست آپ کے مذہب میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، لیکن بعد میں یہ دیکھا گیا کہ پاکستان فرقہ وارانہ سیاست کے جال میں پھنس گیا۔ جناح کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ شروعات میں وہ ہندو۔ مسلم اتحاد کے ایک بہترین سفیر تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے 1916ء میں کانگریس لیڈر لوک مانیا بال گنگا دھر تلک کے ساتھ لکھنؤ معاہدہ کیا تھا۔ بعد میں انہوں نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ آزادی کے بعد ہندو اکثریت میں ہوں گے اور مسلم مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اس طرح وہ اس غلط خیال اور فریب کے شکار بن گئے کہ مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے اور ہندو اکثریتی کانگریس کی زیرقیادت حکومت میں مسلمانوں کے مفادات محفوظ نہیں رہیں گے۔ جناح کی یہ سوچ ان کی سیاست کی سنگین غلطی تھی، اور وہیں سے وہ فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھنے لگے۔ ان کا یہی مقصد تھا کہ ہندوستان سے انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے موتی لال نہرو کمیٹی کے سامنے مسلم مفادات کے تحفظ کیلئے کئی مطالبات پیش کئے، لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ان مطالبات میں زیادہ تر مطالبات مسلمانوں کے دولت مند اور اشرافیہ کے تحفظ پر مبنی تھے۔ اسی دوران ہندو فرقہ پرست طاقتیں اس بات پر زور دینے لگی تھیں کہ یہ ایک ہندو ملک ہے۔ بعد میں ساورکر اور گولوالکر نے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنا نظریہ بھی پیش کیا۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا کنونشن منعقد ہوا جس میں سر محمد اقبال ؔنے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ملک ’’پاکستان‘‘ کا مطالبہ کیا، اس وقت جناح نے اس مطالبہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ 1937ء میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے جس میں مسلم لیگ نے اچھا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس کانگریس نے غیرمعمولی مظاہرہ کرتے ہوئے بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور وزارتوں میں مسلم لیگ کو شامل کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران جناح کو جو علیحدگی پسندی کے نظریہ کو آگے بڑھانے کا تہیہ کرچکے تھے انہیں ایک نئی توانائی حاصل ہوئی اور 1940 ء میں مسلم لیگ کے کنونشن میں انہوں نے پاکستان کا مطالبہ رکھا۔ اہم بات یہ ہے کہ انگریزوں نے بھی علیحدہ مسلم ملک ’’پاکستان‘‘ کا مطالبہ آگے بڑھانے میں جناح کی حوصلہ افزائی کی اور اس میں اہم کردار ادا کیا۔ آج اگرچہ اکھیلیش یادو نے جناح کو گاندھی، نہرو اور پٹیل کے زمرے میں لاکھڑا کیا ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جناح نے مسلم لیگ کے اعلیٰ رہنما کی حیثیت سے کیا رول ادا کیا تھا۔ آج کل ہمارے ملک میں عام طور پر اس طرح کے قائدین اپنے اور اپنے سیاسی ایجنڈہ کیلئے موزوں تاریخ کا مخصوص حصہ پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں۔اسی طرح ہندو قوم پرست ساورکر کے انڈومان دور سے قبل کی انگریز مخالف سرگرمیوں کو پیش کرتے ہیں اور انہوں نے جو دو قومی نظریہ پیش کیا تھا، اسے فراموش کردیتے ہیں۔ ہندو مہا سبھا کے صدر کی حیثیت سے بھی ساورکر نے خود کو تحریک آزادی سے دور رکھا تھا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزوں کی مدد کی تھی۔ اسے گاندھی جی کے قتل کا ایک ملزم بھی کہا جاتا تھا لیکن ان تمام باتوں کو بھلا دیا گیا۔