جنگی ماحول میں وزیراعظم کی بے شرم سیاسی تقاریر

   

پی چدمبرم

ہم ایک قوم کی حیثیت سے بیرونی سلامتی اور داخلی سلامتی کے درمیان امتیاز برتنے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ کچھ تو وجہ ہے کہ اول الذکر کو ’قومی‘ لبادہ کی پناہ لینے کی اجازت رہتی ہے لیکن آخرالذکر کو اس استحقاق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ باریک بین تجزیہ سے پتہ چلے گا کہ بیرونی سکیورٹی اور داخلی سکیورٹی دو نہایت مضبوطی سے مربوط گوشوں میں نہیں رکھے جاسکتے ہیں۔ ایک کی حالت کا دیگر پر اثر پڑتا ہے۔ تاہم، میں صرف موجودہ مسئلہ پر توجہ مرکوز کروں گا۔
میں نے یہ مضمون جمعہ کو تحریر کیا اور آپ اسے پڑھنے سے قبل ہندوستان خود کو جنگ جیسی صورتحال میں پارہا ہے، حالانکہ کوئی نہیں مانتا کہ پاکستان کے ساتھ بھرپور جنگ ہوگی۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان نے ایک F-16 طیارہ اور شاید پائلٹ بھی کھودیا۔ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ زائد از 300 جہادی ہلاک کردیئے گئے۔ میں میری حکومت پر یقین کرنے کیلئے تیار ہوں، لیکن دنیا اپنے انکار سے دستبردار نہیں ہوگی۔ ہندوستان نے ایک MiG-21 طیارہ کھویا، پائلٹ کو پاکستان نے قیدی بنالیا، لیکن وہ رہا کردیئے جانے کی توقع ہے۔ سرکاری بیانات کی رو سے دونوں فریق ایک دوسرے کو متاثر کررہے ہیں اور کوئی بھی واقعی جنگ نہیں چاہتا ہے۔
جنگ کی ضرورت ہی نہیں
ہندوستان کو کسی جنگ کی مصیبت میں پھنسنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 1971ء کے برخلاف، ہندوستان پر کوئی دباؤ نہیں کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبہ کی مدد کیلئے جائے۔ کرگل کے برخلاف، پاکستان نے ہندوستانی علاقہ ہتھیانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ دونوں ملکوں کو پتہ ہے کہ موجودہ صورتحال کا اصل سبب 14 فبروری 2019ء کا پلوامہ میں سی آر پی ایف قافلے پر دہشت گردانہ حملہ ہے۔ لہٰذا، ہم دہشت گردی کے کلیدی مسئلہ پر واپس آجاتے ہیں۔ دہشت گردی کے کوئی بھی ملک کی داخلی سلامتی کیلئے سنگین عواقب و نتائج ہوتے ہیں۔ ہندوستان کو استثناء نہیں ہے۔ میں وہ مسائل پیش کرتا ہوں جو ہندوستان کی داخلی سکیورٹی کو متاثر کرتے ہیں:
.1 دہشت گردی
.2 عسکریت پسندوں کی دراندازی
.3 نکسل ازم یا ماؤازم
.4 فرقہ وارانہ ؍ مذہبی جھگڑا
.5 افتراق یا علحدگی پسندی
.6 ریزرویشن کے ایجی ٹیشن
.7 کسانوں کے ایجی ٹیشن
.8 بین ریاستی آبی یا سرحدی تنازعات
.9 زبان کا جھگڑا
دہشت گردی کلیدی خطرہ
میں نے مذکورہ بالا مسائل اہمیت کے اعتبار سے ترتیب کا کوئی ارادہ کے بغیر جس طرح میرے ذہن میں تحریر کردیئے، لیکن جس ترتیب وہ ظاہر ہوئے بڑی حد تک مسائل کی سنگینی کے عکاس ہیں۔ یہ ترتیب ان مسائل پر قابو پانے ؍ ان کی یکسوئی کرنے میں حکومت کی نسبتاً کامیابی یا ناکامی کا تجزیہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر 1965ء میں ہندی کا موقف ٹاملناڈو میں دھماکو مسئلہ بن گیا تھا اور اس کے انگارے ابھی تک ٹھنڈے نہیں ہوئے ہیں لیکن آج ملک میں کہیں بھی زبان کا کوئی سنگین جھگڑا نہیں ہے۔ (جموں و کشمیر میں) دہشت گردی مسائل میں سرفہرست ہے جو ہندوستان کی داخلی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ چند سال قبل تک صرف نکسل ازم یا ماؤازم ہی تھا؛ جسے ختم نہیں تو بڑی حد تک قابو میں کرلیا گیا ہے۔ 1980ء کے دہے میں پنجاب میں علحدگی پسندی کا مسئلہ تھا لیکن یہ غلط رجحان کو اُس ریاست میں عملی طور پر ختم کیا جاچکا ہے۔ علحدگی پسندی کو (پنجاب میں) ختم کرنے اور ماؤازم پر (نکسل ازم سے متاثرہ ریاستوں بشمول مغربی بنگال میں) قابو پانے میں کامیابی سے مفید سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ اسباق یوں ہیں : (1) دشمن سے نمٹنے میں ٹھوس پن اور زیادہ سے زیادہ قوت کا استعمال اور (2) بقیہ لوگوں سے نمٹنے میں منصفانہ اور مصالحانہ طرزعمل اختیار کرنا۔
اب سیکھے گئے اسباق
میرے لئے ہمیشہ اچنبھا رہا ہے کہ کیوں مرکزی حکومت دیگر جگہوں پر سیکھے گئے اسباق کا جموں و کشمیر کیلئے اطلاق سے انکار کرتی ہے۔ میرا شبہ ہے کہ اس کی وجہ پاکستان کے تئیں گہری دشمنی ہے۔ میرا استدلال ہے کہ سرحد (بین الاقوامی سرحد اور خط قبضہ) کا دفاع زیادہ دستوں کے ذریعے مضبوط کیا جانا چاہئے اور دراندازی کو روکا جائے۔ اس ضمن میں حکومت کا ریکارڈ ناقص ہے۔ سال 2017ء میں 136 دراندازیوں کی اونچی تعداد دیکھنے میں آئی اور جب قطعی اعداد و شمار منظرعام پر آئیں تب 2018ء بدتر سال رہے گا (اس میں ختم اکٹوبر تک 128 دراندازیاں درج ہوچکی ہیں)۔ میرا یہ بھی استدلال ہے کہ حکومت کو ضرور وادی میں نرم تر رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام متعلقین کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ اس کے بجائے، ہمارا طرزعمل بدنام زمانہ طاقت، فوجی نوعیت اور اکثریتی قوم پرستی پر مبنی ہے جو صرف مزید نوجوانوں کو عسکری گروپوں کے ہاتھوں میں پہنچا دیتا ہے (2017ء میں 126 اور اکٹوبر 2018ء تک 164)۔ یہ پالیسی بُری طرح فلاپ ہے، اس کے نتیجے میں مزید دراندازی اور مزید جانی نقصانات ہوئے ہیں۔
پاکستان بے راہ رو، اور اکثر بداندیش پڑوسی ہے۔ اس کے باوجود وہ پڑوسی ملک ہے۔ جیسا کہ اے بی واجپائی نے تسلیم کیا اور جیسا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کبھی کہا تھا کہ ’ہم ہمارے دوست بدل سکتے ہیں لیکن ہم ہمارے پڑوسی نہیں بدل سکتے‘۔ بی جے پی حکومت نے اپنی توجہ دہشت گردی سے پاکستان پر مبذول کردی ہے اور عوام سے بلاچوں چراں حمایت چاہتی ہے۔ چند دن بعد بچ نہیں سکیں گے اور مدلل سوالات پوچھے جائیں گے۔ عجیب صورتحال ہے، کوئی دن نہیں گزرتا کہ وزیراعظم بے شرمی سے سیاسی تقریر کرتے ہوئے کانگریس اور اپوزیشن پر بے تکان حملے کرتے ہیں!
جہاں تک جموں و کشمیر کا معاملہ ہے، جب تک حکومت وادیٔ کشمیر میں بیگانگی کے بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرتی، جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حرکتوں کے خطرے پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔ آخر میں یہ زیادہ بڑا پہلو اختیار کرتے ہوئے قومی سلامتی کا مسئلہ بن جائے گا۔ بی جے پی شاید اسی انداز کی صورتحال چاہتی ہے تاکہ وہ دعویٰ کرسکے کہ پاکستان کو ’شکست‘ دی گئی۔ کچھ اسی نوعیت کی اسکرپٹ لکھی جارہی ہے، لیکن پوری توجہ و احتیاط سے لکھی گئی اسکرپٹس غلط انجام کی موجب بن سکتی ہیں۔ کرگل دیکھ چکے، آپریشن پرکرام ہوچکا، انڈیا شائننگ مہم رہی، اور اے بی واجپائی بھی گزر چکے۔ آخر میں عوام کی دور اندیشی نے نئی حکومت کی ذمہ داری ایک دیگر پارٹی اور اس کے حلیفوں کو سونپ دی۔