جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

   

پائلٹ کی رہائی … مودی کا ٹرمپ کارڈ چھن گیا
کشمیریوں پر مظالم … انسانی حقوق پامال

رشیدالدین
ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی کے ذریعہ پاکستان نے نریندر مودی کے ہاتھوں سے انتخابی سیاست کا ہتھیار چھین لیا ہے ۔ مودی اور بی جے پی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کشیدگی کے اس ماحول میں فراخدلی کا مظاہرہ کرے گا ۔ ونگ کمانڈر کی پاکستانی حراست بی جے پی کیلئے ٹرمپ کارڈ کی طرح تھی جو رہائی سے چھن گئی ہے۔ پائلٹ کی حراست کے نام پر لوک سبھا کی انتخابی مہم کا عملاً آغاز ہوچکا تھا ۔ رہائی کے غیر متوقع اقدام نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیردیا ۔ پائلٹ کی رہائی سے نریندر مودی حکومت کشیدگی کم کرتے ہوئے امن کی جانب پیشقدمی کے اخلاقی دباؤ میں آچکی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی پاکستان کے خلاف جنگ جیتنے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن پائلٹ کو رہا کرتے ہوئے عمران خان نے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی قائدین اب یہ طئے کرنے سے قاصر ہیں کہ اگلا قدم کیا ہو؟ جس طرح سابق میں سرجیکل اسٹرائیک کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا گیا، اس مرتبہ پلوامہ دہشت گرد حملہ اور اس کے بعد پاکستان میں جیش محمد کے ٹھکانوں پر فضائی حملے سے مودی 56 انچ کا سینہ دنیا کو دکھانے لگے تھے لیکن دوسرے ہی دن پاکستان نے جوابی فضائی کارروائی کرتے ہوئے عزائم کو ظاہر کردیا۔ کارروائی کے دوران ہندوستانی پائلٹ کی گرفتاری نے کشیدگی میں اضافہ کردیا تھا ۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ جنگ کے بادل منڈلانے لگے لیکن پائلٹ کی رہائی نے جنگ کے خطرہ کو فی الحال ٹال دیا ہے ۔ پائلٹ کی رہائی سے عالمی سطح پر عمران خان کے امیج میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف بی جے پی کو مایوسی اس لئے ہوئی کیونکہ ان کے الیکشن گیم پلان پر پانی پھرگیا ۔ سرحدوں پر کشیدگی کو دونوں طرف کی بعض سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا ہے ۔ دونوں جانب حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے فوجی سطح پر کشیدگی کا ماحول تیار کیا جاتا رہا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر لڑائی میں سنجیدگی ہوتی تو پاکستان ہندوستانی پائلٹ کو ہرگز اتنی آسانی سے اور غیر مشروط طور پر رہا نہ کرتا۔ نریندر مودی کو اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دوسری میعاد کیلئے منتخب ہونا ہے اور پاکستان سے بہتر کوئی اور انتخابی موضوع نہیں ہوسکتا تھا ۔ دوسری طرف معاشی بحران کا شکار پاکستان کو سنبھالتے ہوئے عمران خان کو اپنی میعاد مکمل کرنی ہے۔ پاکستان کی تاریخ رہی کہ شائد ہی کسی وزیراعظم نے میعاد مکمل کی ہو۔ نریندر مودی ملک کی سلامتی کو انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ مودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ تباہی اور بربادی سے وقتی طور پر سیاسی فائدہ بھلے ہی مل جائے لیکن مجموعی ترقی کئی دہوں پیچھے چلی جائے گی ۔ برصغیر کے مسائل یکساں نوعیت کے ہیں۔ غربت ، بیروزگاری اور بیماری سے نمٹتے ہوئے ترقی کا راستہ یکساں طور پر طئے کیا جاسکتا ہے ۔ جنگ کا ماحول پیدا کرنے کیلئے الیکٹرانک میڈیا برابر کا ذمہ دار ہے۔ مودی کے ہمنوا چیانلس کے نیوز رومس میں اینکرس نہیں بلکہ فوجی کمانڈرس تھے جو فوج کو حملے کیلئے اکسا رہے تھے۔ اینکرس کی زبان اور ان کا جذبات سے بے قابو ہوجانا یہ ظاہر کر رہا تھا جیسے ان کی ڈور کوئی اور ہلا رہا ہو۔ ایرکینڈیشنڈ نیوز رومس سے جنگ کیلئے اکسانے والوں کو لائن آف کنٹرول پر چھوڑ دیا جائے تو پتہ چلے گا کہ جنگ کسے کہتے ہیں۔ دونوں ممالک پرسکون تھے لیکن نیوز چیانلس جنگ کی منصوبہ بندی اور اس کا منظر پیش کرتے ہوئے TRP ریٹنگ بڑھا رہے تھے ۔ ان بکاؤ چیانلس کا ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ کسی بھی طرح نریندر مودی کو سورما اور ملک کے محافظ کے طور پر پیش کریں۔ بعض مودی بھکت اینکرس نے یہاں تک کہہ دیا کہ آر پار کی لڑائی کا وقت آچکا ہے اور یہ صرف مودی سے ممکن ہے ۔ پاکستان کے بعض چیانلس بھی کچھ پیچھے نہیں تھے ۔ اشتعال انگیزی میں مسابقت کے چلتے سوشیل میڈیا اور عوام کی جانب سے کمنٹ کیا گیا کہ نیوز چیانلس کے دفاتر پر پہلے بمباری کریں تو جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ چیانلس کی مسابقت کی دوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن نے پاکستانی تفتیش کاروں کے جن سوالات کا جواب نہیں دیا ، ان کا جواب ہندوستانی نیوز چیانلس دے رہے تھے۔ پائلٹ نے اپنے رہائشی علاقہ اور اڑان کے مشن کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا لیکن چیانلس نے نہ صرف ابھینندن کا مکمل پتہ پیش کردیا بلکہ ٹارگٹ اور ہتھیاروں کی تفصیلات بھی بیان کردی۔ ایسے میں پاکستان کی سیکوریٹی ایجنسیوں کو تفتیش کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ایک طرف پلوامہ کے شہید جوانوں کے پسماندگان کے آنسو بھی نہیں سوکھے کہ نریندر مودی اور بی جے پی نے لاشوں پر سیاست شروع کردی۔ سرحدوں پر تعینات جوانوں کے گھر والے ان کی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں لیکن مودی اور امیت شاہ کو ریالیوں سے فرصت نہیں۔ پائلٹ کی رہائی کے اعلان کے ساتھ ہی مودی نے انتخابی جملہ ادا کیا ’’پائلٹ پراجکٹ ہوگیا اب رئیل کرنا باقی ہے‘‘ ۔ مودی نے ملک بھر کے بی جے پی کارکنوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا جس کا عنوان ’’میرا بوتھ سب سے مضبوط‘‘ تھا ۔ حالانکہ یہ الیکشن اور پولنگ بوتھ کی بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارا نعرہ تو ’’میرا ملک سب سے مضبوط ‘‘ ہونا چاہئے۔ کشیدگی کے سیاسی فائدہ کی مثال اور کیا ہوگی کہ کرناٹک کے سابق چیف منسٹر یدی یورپا نے دونوں ممالک میں فضائی حملے کے بعد بی جے پی لہر کا دعویٰ کیا۔ پلوامہ حملہ سے لیکر آج تک مودی نے ملک کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ مودی نے آل پارٹی اجلاس طلب کرتے ہوئے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا ، حالانکہ یہ تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا موقع تھا۔ ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی انتخابات تک کشیدگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ بھلے ہی جوانوں کی زندگی کو خطرہ کیوں نہ لاحق رہے۔

ہند۔پاک کشیدگی کے اس کھیل میں سب سے زیادہ اگر کوئی متاثر ہوا ہے تو وہ کشمیر کے عوام ہیں۔ پلوامہ حملہ کے بعد سے کشمیر میں مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی میں غیر معمولی اضافہ کی اطلاعات مل رہی ہے۔ کشمیر میں عملاً ایمرجنسی اور مارشل لاء جیسی صورتحال ہے۔ انسانی حقوق ختم ہوچکے ہیں اور آزادیاں سلب کرلی گئیں۔ اس صورتحال پر کوئی بھی آواز اٹھانے والا نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی کشمیری عوام سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور وہ موجودہ حالات میں کشمیر کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر کسی کی توجہ سرحدوں پر ہیں۔ حال ہی میں تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد کانگریس پارٹی کامیابی کے اپنے سفر کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیر سے متعلق سیاسی جماعتیں اور تنظیموں کی اٹھنے والی آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن چکی ہے۔ حکومت کو کشمیریوں کے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہندوستان کی آن بان اور شان کشمیر ہے جو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ اور جنت نشان ہے لیکن حکمرانوں کی عصبیت نے اسے دوزخ بنادیا ہے ۔ کشمیر کے تمام اہم قائدین نظربند کردیئے گئے۔ قانون اور دستور کے پرخچے اڑادیئے گئے ۔ کشمیر سے دشمنی اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ دستور کی دفعہ 370 اور 35(A) کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی کے ایجنڈہ میں 370 کا معاملہ پہلے ہی سے موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ کشیدگی کیلئے کشمیری عوام کس طرح ذمہ دار ہے۔ میر واعظ، یسین ملک اور دیگر قائدین کا کیا قصور؟ کشمیر کے حالات کو ملک تک پہنچانے سے روکنے کیلئے عملاً سنسرشپ عائد کردی گئی۔ وادی میں کیا ہورہا ہے ، کسی کو پتہ نہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے نام پر فوج کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جو انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بن رہی ہے۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے بعد جموں میں مسلمانوں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا لیکن بی جے پی نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔ آخر کار سپریم کورٹ کو کشمیریوں پر حملوں کے سلسلہ میں مداخلت کرنی پڑی۔ اطلاعات کے مطابق وادی میں کئی علاقے بنیادی سہولتوں سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ عوام گھروں میں محروس ہیں اور غذائی اجناس کا انتظام کرنے والا کوئی نہیں۔ کشمیریت ۔جمہوریت اور انسانیت کا نریندر مودی کا نعرہ کیا یہی ہے؟ پی ڈی پی کے ساتھ حکومت چلانے کا تجربہ کرنے والی بی جے پی نے تائید سے دستبرداری کے بعد صدر راج نے اپنا حقیقی رنگ دکھانا شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی اور نریندر مودی کو کوئی حقیقی ایجنڈہ سے واقف کرائے جو بھلا چکے ہیں۔ منموہن سنگھ دور حکومت میں بی جے پی نے ایک کے بدلے 10 سر لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کیلئے فوجی کارروائی کی مسلسل مانگ کی جارہی تھی۔ اب جبکہ نریندر مودی جو اپنے وقت کے سردار پٹیل ہیں، کیوں مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کی کوشش نہیں کرتے ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں سرحد پر ہندوستانی جوانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن کتنی بار ایک کے بدلہ 10 سر لائے گئے ۔ اپوزیشن اور اقتدار میں دوہرے معیارات بی جے پی کا شیوہ بن چکے ہیں۔ دشمن سے لڑنے کے بجائے اپنے ہی عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنا کہاں تک درست ہے ؟ ان تمام حالات میں بی جے پی کے تھنک ٹینک آر ایس ایس کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ناگپور ہیڈکوارٹر پر سناٹا طاری ہے۔ دیش بھکتی کے نعرے لگانے والے اور دوسروں کی حب الوطنی پر شک کرنے والے سیوم سیوک کیا سرحدوں پر جانے کی تیاری میں ہیں ؟ سرحدوں کی حفاظت کیلئے آر ایس ایس کے دستوں کو کب بھیجا جائے گا ؟ ساحر لدھیانوی کی طویل نظم کے دو شعر موجودہ حالات میں کسی پیام سے کم نہیں ؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے