جنگ کو تماشہ بنانا بند کریں

   

راج دیپ سردیسائی
جنگ کرکٹ کا کوئی مقابلہ نہیں اور غیرمعمولی دلیرانہ ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کے پار فضائی کارروائی کو کسی سیاسی تماشہ تک محدود نہیں کردینا چاہئے۔ لیکن ہم الیکشن سیزن میں ہیں جو شاید پاکستان میں بالاکوٹ دہشت گرد کیمپ پر احتیاطی و غیرفوجی حملے کی وضاحت کرسکے۔ ساری قوم کی اجتماعی آرزو ہے کہ پلوامہ میں 40 سی آر پی ایف سپاہیوں کی سفاکانہ ہلاکت کا انتقام لیا جائے، لیکن غالب قومی رجحان سے ایک سوال بھی ابھرتا ہے: کیا پلوامہ اور پاکستان کلیدی موضوعات بن چکے ہیں جو 2019ء کے جنرل الیکشن میں ووٹر کی سوچ پر اثرانداز ہوں گے۔
پلوامہ واقعہ سے قبل کے ہفتے میں لڑائی کی باتیں زیادہ قابل قیاس اصطلاحوں میں ہونے لگی تھیں۔ جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) قیادت نے مضبوط سرکار بمقابلہ مہاملاوٹ مخلوط کی بات کی، وہیں اپوزیشن نے نوکریوں سے لے کر زرعی پریشانی تک مودی حکومت کے مبینہ ناکام وعدوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ اب فضائی کارروائی کے بعد بی جے پی کے سیاسی کرتا دھرتا چاہ رہے ہیں کہ اس الیکشن کو طاقت پر مبنی قوم پرستی اور لیڈر کے طور پر مودی جنھوں نے دشمن کو سبق سکھانے کے سیاسی حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے طاقتور امیج کے زیادہ جذباتی موضوع کے اطراف گھمایا جائے۔ پورا پیام یہی ہے کہ بی جے پی کے خلاف ووٹ نہ صرف اب مودی کے خلاف ووٹ بلکہ قوم دشمن قوتوں کے حق میں ووٹ بھی ہوگا۔
جنگجو ذہنیت کا حامل ٹیلی ویژن میڈیا جنگ کے لئے بے تاب نظر آرہا ہے اور سوشل میڈیا پر حامیوں کی بڑی فوج ان کے کٹر حلیف ہیں، اس طرح ایسا ماحول پیدا کرنے کی ٹھوس مہم چلائی جارہی ہے کہ جو کوئی حکومت پر سوال اٹھائے اسے فوری قوم دشمن قرار دیا جائے۔ پھر چاہے وہ پلوامہ واقعہ میں انٹلیجنس کی فاش غلطیاں ہوں، کشمیر میں اور اڈہاک پاکستان پالیسی میں سمت کا فقدان کیوں نہ ہو، حکومت نے اپنی ناکامیوں کو تیزی سے بڑھتے بحران پر متحدہ قومی ردعمل کی ضرورت کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ جنونی ردعمل بعض مرحلوں پر طفلانہ حدوں تک پھیل گیا جس میں سنیل گواسکر اور سچن تنڈولکر جیسے کرکٹ لجنڈز کی حب الوطنی پر تک سوال اٹھائے گئے کیوں کہ وہ آنے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا بائیکاٹ کرنے کی تجویز کی تائید نہیں کررہے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بی جے پی نے ہندو قوم پرستی کے اُصول کے ساتھ پارٹی اور اس کی قیادت کا موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح کا داؤ تب بھی استعمال کیا گیا جب مودی نے بی جے پی کی متنازعہ 2002ء گجرات مہم کی قیادت کی تھی۔ گودھرا میں ٹرین کے ایک کمپارٹمنٹ میں کارسیوکوں کی آتشزدگی سے موت انتقامی حملے چھیڑنے کی وجہ بن گئی تھی۔ ٹرین کو سبوتاج کرنے والوں کی شناخت نہ صرف مقامی مسلمانوں کی حیثیت سے کی گئی بلکہ پڑوسی پاکستان والے بھی ملوث بتائے گئے، جس پر گجراتی وقار یا اَسمیتا کی آڑ میں نیم قوم پرستانہ جذبات بھڑک اٹھے۔ اس کے بعد جس طرح جوش و جذبہ پیدا ہوا، آنے والے انتخابات میں بی جے پی کے لئے دو تہائی اکثریت سے فتح یقینی ہوگئی۔ 2002ء چناؤ کے اس ماڈل کی اب قومی سطح پر 2019ء الیکشن میں نقل کی جارہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں، پاکستان نشین جہادی گروپوں جیسے جیش محمد اور پاکستان آرمی میں ان کے سرپرستوں کے درمیان ربط بتاتے ہوئے قوم کو داخلی اور بیرونی دشمنوں سے جوکھم کا خائف کرنے والا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ خوف پیدا کرنے والی ایسی تصویر کو دانستہ طور پر پیش کیا گیا جب امیت شاہ نے آسام کے فرقہ وارانہ طور پر حساس ضلع لکھیم پور میں منعقدہ سیاسی ریلی میں متنبہ کیا کہ بی جے پی اس ریاست کو کشمیر نہیں بننے دے گی۔
ابھی تک نہ کشمیر اور نا ہی پاکستان کسی ہندوستانی جنرل الیکشن میں مرکزی موضوع نہیں رہے، حتیٰ کہ 1999ء کے انتخابات میں بھی نہیں، جو کرگل جنگ میں کامیابی کے فوری بعد اٹل بہاری واجپائی زیرقیادت بی جے پی نے جیتے۔ یہ درست ہے کہ جنگ جیسا ماحول قوم کو یکجا کرتا ہے اور قومی مقصد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ شمالی ہندوستان بالخصوص اترپردیش میں جہاں خونریز تقسیم ہند کے زیادہ کچے اور دائمی زخم موجود ہیں، پاکستان کے خلاف ٹھوس کارروائی پر مبنی کوئی بھی سیاسی مضبوطی برسراقتدار پارٹی کو فیصلہ کن جہت دے سکتی ہے۔
تاہم، نیوکلیر اسلحہ کے حامل پڑوسیوں کے درمیان لڑائی کی شدت بڑھانا نہایت جوکھم بھری سوچ ہے، وہ تمام تر جوش کے باوجود جو اُری جیسی فلم سنیما تھیٹر میں پیدا کرسکتی ہے، بنیادی حقائق زیادہ محتاط طرزعمل کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر چاہے کتنے ہی بلند حوصلہ ہوں، نعشوں کے تابوت گھروں کو آنے کے امکان سے بہ آسانی نہیں نمٹ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو آنے والے ہفتوں میں احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جب کہ انتخابی ماحول گرما رہا ہوگا۔ ٹی وی اسٹوڈیوز میں جنگی حکمت عملی کے مختلف داؤ پر سرسری انداز میں مباحث کرنا معلومات اور حساسیت کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
حقائق کی دنیا میں طویل مدتی کلیدی مقاصد کو عارضی انتخابی فائدے کے ساتھ ہرگز نہیں الجھانا چاہئے: نیوز چیانلس شاید ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹس (TRP) کے لئے غیردانشمندانہ مسابقت میں پڑجائیں، لیکن ذمہ دار حکومت قومی سلامتی کے معاملے میں ووٹوں کی جنگ کا رویہ نہیں اختیار کرسکتی ہے۔
اختتامی تبصرہ : گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی شو میں چینائی کے ایک بڑے کالج میں اسٹوڈنٹس کا جن کو میں نے ووٹ دیا، دو ٹوک موقف رہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ایسا کوئی حل نہیں جس کی وہ تائید کرسکیں۔ اور نہ ہی وہ کھیل کود کے روابط توڑنے کے خواہاں ہیں۔ ہاں، ہم سب محب وطن ہندوستانی بجاطور پر برہم ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے سلسلے کو بند کرنے سے انکار کیا ہے، اور ہمارے مسلح فورسیس کے پیشہ ورانہ مظاہرے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن حکومت کے رویہ کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہئے کہ دہلی پر نظر رکھتے ہوئے جنگ کی گونج پیدا کی جائے۔
rajdeepsardesai52@gmail.com