جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ

   

بدل کے رکھ دئے فکر و نظر کے پیمانے
جنوں کو ہوش بداماں بنادیا تونے
جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ
دہلی کی باوقار جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر اتوار کی شام ہوئے حملے نے سارے ملک میں ایک تشویش کی لہر پیدا کردی ہے ۔ اختلاف رائے کو کچلنے کیلئے جس طرح سے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے اور خود حکومت سے تعلق رکھنے والے عناصر کی جانب سے کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک میں جس طرح سے اختلاف رائے رکھنے والوںکو نشانہ بنانے کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ متاثر ہونے لگی ہے ۔ نہ ان عناصر کو ملک کی شبیہہ کی فکر ہے اور نہ ہی حکومت اس تعلق سے کوئی پرواہ کرتی نظر آر ہی ہے ۔ الٹا حکومت ان عناصر کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں بچانے کی فکر میں نظر آتی ہے اوراختلاف رائے رکھنے والوں کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے ان گوشوں کے خلاف ہر طرح کی مذموم سازش کی مدافعت کرتی نظر آ رہی ہے ۔ جے این یو میں گھس کر جس طرح سے نقاب پوش غنڈوں نے حملہ کیا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ آخر اس ملک میں کون محفوظ ہے ۔ کہیں بھی کوئی بھی اپنے خیال اور نظریہ سے اختلاف کرتا نظر آئے تو اس کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ٹھکانے لگانے کی ذہنیت نے سارے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ چاہے پولیس کے ذریعہ ہو یا پھر اپنے محاذی غنڈہ عناصر کے ذریعہ اس طرح کی مہم کو ہوا دی جا رہی ہے اور مخالفین کو ہی الٹا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے اور ان کی آواز کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ اس کے پس پردہ محرکات کئی ہوسکتے ہیں۔ ایک تو دہلی میںانتخابات کا سامنا ہے ۔د وسرے یونیورسٹیز کے طلبا کی جانب سے ملک بھر میںشہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف شدت سے مہم چلائی جا رہی ہے ۔ اس آواز کو ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت قبول کرنے یا برداشت کرنے تیار نہیں ہے ۔ ملک کا مستقبل بننے والے طلبا کو غنڈہ عناصر کے ذریعہ اس طرح سے نشانہ بنانے کا کوئی جواز کسی بھی مہذب سماج میں ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
اس طرح کے حملے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت سارے ملک میںا یک ہی سوچ اور نظریہ کو مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ایک کے بعد دیگرے ملک کے اہم ترین اور جمہوری و دستوری حیثیت رکھنے والے اداروں کے کردار کو مسخ کرنے کے بعد بی جے پی حکومت جامعات کا تعاقب کرنے لگی ہے ۔ جے این یو کو تو ویسے بھی پہلے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ سابقہ معیاد میں جے این یو کے طلبا کو ملک کا غدار قرار دیتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور شہری نکسل قرار دیدیا گیا ۔ اب دوسری معیاد میں ساری جامعہ کو نشانہ بنانے کی مہم شروع ہوگئی ہے ۔ پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو نشانہ بنایا گیا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی بھی ان کے نشانہ پر ہے ۔ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے حکومت کے ارادے اور منصوبے ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے ہیں۔ حکومت کے منصوبوں میںہر ادارہ کو اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کو نشانہ بنانا شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت دہلی میںحکومت کی ناک کے نیچے حکومت کے محاذی غنڈے کھلی غنڈہ گردی کرتے ہیں اور جان لیوا حملے کرتے ہیں لیکن کوئی ادارہ ایسا نہیںرہ گیا ہے کہ وہ از خود ان واقعات کا نوٹ لے اور اس کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے ۔ جہاں تک پولیس کا سوال ہے تویہ واضح ہوچکا ہے کہ پولیس فورس بی جے پی کے کنٹرول میں ہے اور اسی کے اشاروں پر حکومت کے مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے ۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ ایک تیر سے کئی نشانہ والی کوشش بھی ہوسکتی ہے ۔ ایک تو اس کے ذریعہ دہلی اسمبلی انتخابات کیلئے ماحول کو پراگندہ کرنا ہے تو دوسری کوشش ملک بھر میں جو مخالف شہریت ترمیمی قانون و مجوزہ این آر سی احتجاج چل رہا ہے اس کو دبانا اور اس سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرنا بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے ذریعہ ملک بھر کی جامعات کے طلبا و طالبات کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان میںڈر و خوف پیدا کرنا بھی ہے ۔ تاہم حکومت کو یہ احساس کرلینے کی ضرورت ہے کہ ملک کے طلبا ہوں نوجوان ہوں یا پھر سارے عوام ہوں وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں اور طاقت کے بیجا استعمال و غنڈہ گردی سے خوفزدہ ہونے والے نہیںہیں۔ وہ جمہوری اور دستوری حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیںاور اس جدوجہد کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ ایسے حملے سیاسی فائدہ بھی نہیںپہونچا پائیں گے ۔