یوپی حکومت کے وکیل نے کاپن کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے کے بعض ملاممین دہلی فسادات معاملہ کے بھی ملزمین ہیں
نئی دہلی۔سپریم کورٹ نے پیر کے روز اترپردیش حکومت کے لئے ایک نوٹس کیرالا کے صحافی صدیقی کاپن کی درخواست ضمانت پر جاری کی ہے جس کو ایک دلت لڑکی کی عصمت ریزی او رقتل کے معاملے کی رپورٹنگ کرنے کے لئے ہاتھر س جاتے وقت دیگر کے ساتھ 5اکٹوبر2020کو اترپردیش پولیس نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیاہے۔
سینئر وکیل کپل سبل‘ کاپن کی نمائندگی کررہے ہیں جنھوں نے چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی نگرانی والی بنچ کے سامنے کہاکہ سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے میرے موکل کے اکاونٹ میں پی ایف ائی نے 45,000روپئے کی رقم جمع کرانے کا کلیدی الزام ہے‘ تاہم اس کا کوئی ثبوت نہیں او ریہ محض الزامات ہیں۔
سبل نے کہاکہ ”پی ایف ائی کو دہشت گرد تنظیم نہیں ہیں۔ پی ایف ائی کو ئی ممنوعہ تنظیم نہیں ہے۔ میں ایک صحافی ہوں۔ میں ہاتھرس محض معاملے کی رپورٹنگ کے لئے جارہاتھا“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ان کے موکل سابق میں ایک نیوز پیپر کے لئے کام کرتے تھے اس کاتعلق پی ایف ائی سے تھا‘ اور اب وہ اس تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں۔یوپی حکومت کے وکیل نے کاپن کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے کے بعض ملاممین دہلی فسادات معاملہ کے بھی ملزمین ہیں۔
سبل نے کہاکہ کاپن دہلی فسادات میں کوئی ملزم نہیں ہیں۔ دلائل سننے کے بعد مذکورہ بنچ جس میں ایس رویندرا بھٹ بھی شامل ہیں نے یوپی کے وکیل سے اس معاملے میں اعتراض داخل کرنے کا استفسار کیا او رکاپن کی درخواست پر ایک نوٹس جاری کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں سنوائی اگلے ہفتہ تک ملتوی کردی ہے۔ ا س ماہ کی ابتداء میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے کاپن کی درخواست ضمانت مسترد کی ہے۔عدالت عظمیٰ میں کاپن کی درخواست میں کہاگیاہے کہ ”درخواست کو مسترد کئے جانے کے نتیجے میں درخواست گذار جو کہ ایک صحافی بھی ہے اور 12سال کا صحافتی تجربہ رکھتے ہیں‘ جنھوں نے کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹ دہلی چیاپٹر کی بطور سکریٹری نمائندگی بھی کی ہے‘مسلسل قید میں ہیں۔
فی الحال مذکورہ درخواست گذار نے سلاخوں کے پیچھے تقریبا دو سال گذار دئے ہیں‘ صرف اسلئے کہ اس نے ہاتھرس عصمت دری قتل کے بدنام زمانے معاملے کی رپورٹنگ کی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ہے“۔
درخواست میں استدلال کیاگیاہے کہ یہ درخواست آزادی کے حق کے ساتھ ساتھ ائین کے تحت آزاد میڈیامیں موجود اظہار رائے اور تقریر کی آزادی کے متعلق بنیادی سوالات اٹھاتی ہے۔مذکورہ عدالت نے جس گاڑی میں صحافی سفر کررہے تھے اس کے ڈرائیور کو ضمانت دیدی ہے۔
کاپن کی درخواست میں کہاگیاہے کہ وہ فی الحال ’ازہی موکوم“ نیوز پیپر کے لئے کام کررہے ہیں اور پریس کلب آف انڈیا اور کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) کے ایک رکن بھی ہیں۔
درخواست میں مزیدکہاگیاہے کہ ”درخواست گذار ہے ایک ایسا فرد ہے جس کی شبہہ صاف ہے اور وہ کبھی ماضی میں قانون کی خلاف ورزی کرتے نہیں پائے گئے ہیں۔
اپنی فیملی کے گذارے کا واحد ذریعہ ہیں اور اکٹوبر2020سے ان کی قیدگھر والوں اوردوستوں کے لئے ناقابل تسخیر معاشی اور ذہبی مشکلات حالات پیدا کی ہے“۔درخواست میں کہاگیاہے کہ ان کی گرفتاری جھوٹے دعوی پر کی گئی ہے کہ وہ امن کو درہم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
یوپی حکومت کا کہنا ہے کہ کہ وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا جو ممنوعی تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا(ایس ائی ایم ائی) کی ”تنظیم نو“ ہے۔
یہ بھی الزام لگایاگیا ہے کہ کاپن ”تیجس“ اخبار کے لئے کام کیاہے جو2018ڈسمبر میں بند ہوگیاہے۔ یہ پی ایف ائی کا ترجمان ہے۔