جی ڈی پی شرح نے معیشت کی قلعی کھول دی

   

رویش کمار

ہندوستان کی معیشت دِگرگوں ہے۔ اسے چھپانے کی تمام تر کوششوں کے درمیان جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) کے اعداد و شمار نے حقیقت ِ حال آشکار کردی ہے۔ سماج میں بے روزگاروں کی ’فوج‘ چیخ رہی ہے کہ کام نہیں ہے، دکانداروں کی ’فوج‘ کہہ رہی ہے کہ کوئی طلب نہیں ہے، اور انڈسٹری کی ’آرمی‘ زور دے رہی ہے کہ نہ سرمایہ ہے، نہ طلب ہے، نہ ہی کام۔ نیشنل اسٹاٹسٹیکل آفس سے دستیاب ڈیٹا نے انکشاف کیا ہے کہ صورتحال بہت خراب ہے۔ انڈیا کی جی ڈی پی چھ برسوں میں اس قدر نیچے نہیں آئی تھی۔ یہ گزشتہ 25 سہ ماہی کی بدترین رپورٹ ہے۔ 2013ء کے پہلے سہ ماہی میں جی ڈی پی 4.3 فیصد تھی، جس کے بعد اقل ترین جی ڈی پی رواں سال کے پہلے سہ ماہی میں درج ہوئی ہے۔

مالی سال 2019-20ء کے پہلے سہ ماہی کی جی ڈی پی کا تخمینہ 5 فیصد لگایا گیا ہے۔ ہندوستان کی معیشت کی جسامت 35.85 لاکھ کروڑ ہے۔ ماہرین کہتے رہے کہ جی ڈی پی برائے پہلا سہ ماہی 5.8 فیصد رہے گا۔ لیکن اس سے بھی کم شرح جی ڈی پی درج ہوئی ہے۔ 5 فیصد کی جی ڈی پی سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہندوستان کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ یہ انحطاط یکایک نہیں ہوا ہے۔ اس کی شروعات 2018-19ء کے پہلے سہ ماہی سے ہوئی۔ دیڑھ سال ہوچکے لیکن صورتحال میں بہتری نہیں آئی۔ اپریل۔ جون کی مدت میں شرح جی ڈی پی 8.0% رہی، جولائی۔ ستمبر میں 7.0%، اکٹوبر۔ ڈسمبر میں 6.6% ، جنوری ۔ مارچ میں 5.8% ۔ اور اب اپریل تا جون گھٹ کر یہ 5.8% سے 5.0% ہوگئی ہے۔

زراعت، سمکیات، کانکنی، مینوفیکچرنگ، تعمیرات، رئیل اسٹیٹ کی حالت خراب ہے۔ زراعت میں شرح ترقی 2018-19ء کے پہلے سہ ماہی میں 5.1 سے 2 فیصد تک گھٹ گیا ہے۔ دیہات کی حقیقی حالت تو ابھی پوری طرح معلوم نہیں ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر بری طرح بکھر رہا ہے۔ ’میک اِن انڈیا‘ کو اسی شعبے کیلئے متعارف کرایا گیا تھا۔ مارچ کے سہ ماہی میں 3.1 فیصد شرح نمو تھی، جو گھٹ کر اب اندرون 1 فیصد ہوگئی ہے۔ یہی شعبے ہیں جہاں منظم اور غیرمنظم روزگار زیادہ ہے۔ اگر وہاں دیڑھ سال تک گراوٹ کا رجحان رہے تو پھر آپ سمجھ سکتے ہو کہ نیوز چیانلوں پر اس موضوع کی بھرمار کیوں ہوتی ہے۔ تاہم، زیادہ تر نیوز چیانلوں کی ریکارڈنگز پر نظر ڈالئے، ہندوستان کی معیشت میں گراوٹ کی آواز نہیں سنائی دے گی۔ مباحث مختلف نوعیت کے مسائل پر منعقد کئے جارہے ہیں جیسے نقلی ماوا مٹھائیاں دیوالی کے دوران بنائی جاتی ہیں، اسی طرح چیانلوں پر فرضی مسائل پر مباحث کئے جارہے ہیں۔ حالانکہ ایسا کوئی شعبہ نہیں جو گہرے بحران سے دوچار نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے بے روزگاروں کا کیا حال ہے، جو جابس کررہے ہیں وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں، بزنس مین کمیونٹی کی کیا پریشانیاں ہیں جن پر قرض کا بوجھ دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسا کوئی بڑا شعبہ نہیںجو دو ہندسی شرح پر بڑھ رہا ہے۔ سب سے زیادہ بڑھوتری الیکٹریسٹی سیکٹر میں 8.6 فیصد ریکارڈ ہوئی ہے۔

نومبر 2016ء میں نوٹ بندی کی گئی۔ تب کہا گیا کہ یہ اقدام آنے والے دنوں میں اچھے ثمرات لائے گا۔ پھر جی ایس ٹی (محصول برائے اشیاء و خدمات) یکم جولائی 2017ء کو نافذ العمل کیا گیا، جس کے تعلق سے کہا گیا کہ یہ بھی مستقبل قریب میں اچھے نتائج فراہم کرے گا۔ لیکن وہ وقت ابھی تک نہیں آیا ہے۔ تمام بڑے شعبے بمشکل کام کررہے ہیں۔ حال ہی میں ’دی ہندو‘ میں پوجا مہرہ کا تجزیہ شائع ہوا کہ کمپنیوں کا جملہ سرمایہ نوٹ بندی کے بعد سے 60 فیصد گھٹا ہے۔ ریزرو بینک رپورٹ حال ہی میں منظرعام پر آئی۔ اس میں ادعا کیا گیا کہ کیاشلیس کو معیشت میں متعارف کرایا جارہا ہے، لیکن ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کیاش کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ نقدی کی منتقلی میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زائد از 71 ہزار کروڑ روپئے کے بینک فراڈ درج ہوئے ہیں، جو پیوستہ سال کے مقابل 74 فیصد زیادہ ہیں۔
ہر روز لوگ ہمیں جابس کیلئے دوڑ دھوپ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ عارضی ورکرز سے مڈل کلاس منیجرز تک سب کی حالت خراب ہے۔ دہلی میں جہاں نیوز چیانلز کے ہیڈکوارٹرز قائم ہیں، کئی جگہوں پر کام نصف تک گھٹ چکا ہے، لیکن آپ کو یہ حقیقت زیادہ تر چیانلز پر دکھائی نہیں دے گی۔ فریدآباد کی ایک فیکٹری میں کئی مشینوں پر دھول جمع ہوچکی ہے۔ شرٹس کے کالر میں مستعمل ٹیپ تیار کرنے والی فیکٹری میں گزشتہ چھ تا سات ماہ سے مشینیں صرف دھول جمع کررہی ہیں اور مالک سود شمار کرتا جارہا ہے۔ صرف دو مشینوں کی لاگت 48 لاکھ روپئے لیکن کچھ کام نہیں ہورہا ہے۔ دہلی کے کبیرنگر کا سشیل مہاپاترا نے بہ نفس نفیس مشاہدہ کیا۔ اس مقام پر جینس پینٹس یا شرٹ کی سلائی کا کام ہوتا ہے۔ جمعہ کے سبب مارکیٹ بند تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ کسی اور دن بھی دیکھیں تو عملاً یہی صورتحال رہے گی۔ گزشتہ دو ماہ سے ورکرز خالی بیٹھے ہیں۔ یہی حالت علاقے کی دیگر چھوٹی فیکٹریوں کی بھی ہے۔ یہ سب ریٹیل ورک کی مثالیں ہیں۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے لیبرز کو یہی کاموں سے کمائی ہوتی ہے۔
وزیر فینانس نرملا سیتارامن کے ساتھ جمعہ کا روز جڑتا جارہا ہے۔ اس مرتبہ پبلک سیکٹر بینکوں کو بڑے پیمانے پر ضم کردیا گیا۔ 2017ء میں 27 گورنمنٹ بینکس ہوا کرتے تھے، اب صرف 12 باقی رہ گئے ہیں۔ یہ انضمام بینکوں کی اہلیت اور کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تاکہ نئے بینک کا بیالنس شیٹ بہتر ہوسکے۔ وزیر فینانس نے کہا کہ مالی سال 2018ء میں صرف 2 بینک منافع میں چلے لیکن اب 14 بینکس نفع کما رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملازمین کی کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ اورینٹل بینک اینڈ کامرس اور یونائیٹیڈ بینک کو پنجاب نیشنل بینک کے ساتھ ضم کیا گیا ہے۔ کنارا بینک، سنڈیکیٹ بینک ضم ہوگئے ہیں۔ یونین بینک، آندھرا بینک اور کارپویشن بینک کو ضم کیا جاچکا ہے۔ انڈین بینک اور الہ آباد بینک کا بھی انضمام ہوا ہے۔ اپریل سے دیکھیں تو دینا بینک اور وجئے بینک کو بینک آف بڑودہ کے ساتھ ضم کیا گیا۔ اس انضمام کے ساتھ بینک آف بڑودہ ملک کا تیسرا بڑا بینک بن گیا۔ یہ ہندوستان میں تین بینکوں کے انضمام کا پہلا واقعہ رہا۔ تاہم، بینک آف بڑودہ والے انضمام کے کوئی قابل لحاظ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اب 10 بینکوں کو چار بینکوں میں ضم کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ صرف غیرنفع بخش اثاثے بیالنس شیٹ میں ظاہر نہیں ہوں گے۔ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔
کوئی نیا جاب نہیں ہے اور سربراہ خاندان پر قرض کا بوجھ ہے۔ اب کوئی الیکشن بھی نہیں کہ تعلیمی قرض کو معاف کیا جائے۔ سرکاری امتحانات کی حالت خراب ہے۔ اس تعلق سے کوئی بھی حکومت بات نہیں کررہی ہے۔ اسٹاف سلیکشن کمیشن کے CGL17 اگزام کا نتیجہ اگست 2019ء کے اختتام کے باوجود نہیں آیا ہے۔ کمیشن نے نومبر تک نتیجہ آجانے کا بیان جاری کیا تھا لیکن اسٹوڈنٹس کو بھروسہ نہیں ہے۔ ایس ایس سی کا کہنا ہے کہ 2017ء کا امتحان عدالت میں پھنس گیا، اس درمیان 2018ء کا امتحان شروع ہوگیا، جس کے سبب نتائج میں تاخیر ہورہی ہے۔ اسٹوڈنٹس نے مجبوراً وزیراعظم مودی سے لے کر وزیر داخلہ امیت شاہ اور جتندر سنگھ کو تک ٹوئٹر پر ٹیگ کیا ہے۔

یہی حالت ریلوے کے رکروٹمنٹ اگزامنیشن کی ہے۔ بڑی تعداد میں اسٹوڈنٹس کے فارمس کسی نہ کسی وجہ سے مسترد کردیئے گئے۔ دور دراز کے علاقوں سے کافی غریب طلبہ نے ہمیں واقف کرایا کہ فارم پُر کرنے کیلئے 500 روپئے خرچ کئے گئے تھے، ہمیں موقع کیوں نہیں ملا؟ 30 اگست کو ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ نے جواب پیش کرتے ہوئے لکھا کہ 17 اور 23 اگست کے درمیان ایک لنک کھولا گیا جس میں اسٹوڈنٹس سے شکایت طلب کی گئی۔ کئی طلبہ نے لنک حاصل نہ ہونے کی شکایت کی، جس پر بورڈ نے تاریخ میں توسیع کی۔
دریں اثناء ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ نے جونیر انجینئر اگزامنیشن جاری کیا ہے۔ اسٹوڈنٹس کے اسکرین شاٹس وائرل ہیں۔ پرچہ سوالات کے افشاء کے تعلق سے شبہات پائے جاتے ہیں۔ بورڈ کے حکام نے ’انڈین اکسپریس‘ کو بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ ممبئی ڈیویژن نے اس کیس میں ایف آئی آر درج کرلیا ہے۔
ravish@ndtv.com