جی20۔ کیا دنیا پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہے؟

   

رویش کمار
روس کے صدر ولادیمیر پوٹین نے ’فینانشل ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا ہے۔ جاپان کے اوساکا میں G20 میٹنگ میں جانے سے قبل پوٹین کے انٹرویو کی کئی زاویوں سے اہمیت ہے۔ پوٹین نے واضح طور پر کہا ہے کہ فراخدلانہ پالیسی کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب اس میں کوئی مضبوطی باقی نہیں رہی ہے۔ فراخدلی کو برقراری کا حق ہے، لیکن آج کے دور میں اس کا رول کیا ہے؟ پوٹین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمہ تہذیب کا خاصہ عرصہ گزر چکا ہے، عوام اس کے خلاف ہیں۔ عوام نہیں چاہتے کہ سرحدیں کھلی رہیں اور لوگوں کی نقل و حرکت چلتی رہے۔ ان مسائل پر ہندوستان میں بھی بحث ہورہی ہے۔ ایسے مباحث میں آپ لبرل آئیڈیا اور ہندوستان کے نظریہ کے تعلق سے بات کرتے ہو۔ بنیادی طور پر ہم اسے کثرت میں وحدت کے نعرے کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ لیکن پوٹین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اس کے دن گزر چکے۔ پوٹین ترک وطن کے خلاف صدر ٹرمپ کے موقف کی ستائش کررہے ہیں، وہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل پر تنقید بھی کررہے ہیں، جنھوں نے شامی ارب پتی شخصیتوں کو ہٹا دیا ہے جو پوٹین کی دانست میں فاش غلطی ہے۔ پوٹین 18 سال سے برسراقتدار ہیں۔

پوٹین کے انٹرویو کو توجہ سے ملاحظہ کرنا چاہئے۔ وہ پہلے ہی کہتے ہیں کہ G20 میٹنگ سے کوئی ٹھوس نتیجے کی امید نہیں ہے اور یہ کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کم ہوجائے گی۔ لیکن پوٹین کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ڈرامائی اور دھماکو موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہے۔
سرد جنگ کے وقت بعض اُصول و قواعد تھے، بات چیت کے فورم بھی تھے جس پر ہر کسی کو ایقان تھا اور اس کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دنیا پہلے ہی منقسم ہے۔ معلوم نہیں فی الواقعی یہ بات کب اُبھر آئے گی۔جہاں تک اوساکا میں G20 کی میٹنگ کا تعلق ہے، پوٹین نے کہا کہ وہاں کم از کم دنیا کے ممالک کے مابین کچھ عمومی قواعد ہونے چاہئیں، جو تمام کی تعمیل ہونا چاہئے۔ یہی بات وزیراعظم ہند نریندر مودی نے G20 ملکوں کے قائدین سے کہی ہے۔ پوٹین نے موجودہ صورتحال میں یہ بھی کہا ہے کہ G20 کی طرف سے کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم بس یہی امید کرسکتے ہیں کہ کشیدگی بات چیت کے ذریعے گھٹائی جائے گی۔
پوٹین بار بار اصرار کرتے ہیں کہ روایتی اقدار کہیں زیادہ مستقل نوعیت رکھتے ہیں اور کروڑوں لوگوں کیلئے قابل قدر ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ٹرمپ اور پوٹین کے درمیان سخت مسابقت رہتی ہے، لیکن انٹرویو میں پوٹین نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے کئی اقدامات کو پسند نہیں کرتے لیکن ٹرمپ قابل لیڈر ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اُن کا ووٹر اُن سے کیا چاہتا ہے۔ امریکہ کے متوسط طبقہ کو عالمی معیشت سے فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ٹرمپ نے اس بات کو سمجھا اور اسے انتخابی مہم میں استعمال کیا۔
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ عالمی معیشت میں فائدہ کسے حاصل ہوا؟ سب سے زیادہ فائدہ کسے ملا؟ چین میں غریب لوگوں کو فوائد حاصل ہوئے لیکن امریکہ میں کیا ہوا۔ بے شک، امریکہ کی بڑی کمپنیوں کو عالمی معیشت کا فائدہ حاصل ہوا، لیکن مڈل کلاس کو کچھ فائدہ نہ ملا۔ ٹرمپ کی کامیابی کی وجوہات کو اس موضوع کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

لبرل ازم کے تعلق سے نیوز ٹیلی ویژن پر کچھ بولنا بہت مشکل رہے گا۔ اس کی اپنی طویل تاریخ ہے۔ پھر بھی بانی بیدی نے ہماری کچھ مدد کی ہے، تاکہ ہم بھی جان سکیں کہ سیاست میں یہ کیسا دھارا ہے۔ مختصراً لبرل ازم شخصی آزادی کا امکان پیدا کرتا ہے۔ آکسفورڈ نے لبرل ازم کے تعلق سے مائیکل فروڈن کا تحریر کردہ تعارف پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق 200 سال قبل اسپین میں شخصی آزادی پر زور دینے والی ایک سیاسی پارٹی تھی، جس کا نام Libreal تھا۔ لیکن اس کا آئیڈیا یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیلا اور اس کو مختلف نوعیت سے پیش کیا گیا۔ عام طور پر اسے کلاسک، سوشل اور نیو لبرل ازم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لبرل ازم کو یو کے میں وسط کا بایاں بازو سمجھا جاتا ہے۔ یعنی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ۔ فرانس اور جرمنی میں لبرل ازم کو وسط کے دایاں بازو سمجھا جاتا ہے؛ یعنی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں بھی مختلف نوعیت کا فہم و ادراک ہے۔
جہاں سماج کافی مذہبی نوعیت کا ہو، وہاں لبرل، لبرل ازم کو خدا شناسی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ روسی صدر کا کہنا ہے کہ لبرل ازم اب ختم ہوچکا ہے۔ G20 میں جو کچھ کہا جارہا ہے اس پر غور کیا جانا چاہئے۔
G20 میٹنگ سے قبل وزیراعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات سے ایک پیام سامنے آیا کہ ہندوستان نے 28 امریکی اشیاء کو درآمد کرتے ہوئے امپورٹ میں اضافہ کیا ہے، جو کافی نہیں ہے، اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، ہندوستان کو فوری دستبرداری اختیار کرلینا چاہئے۔ دونوں قائدین کے درمیان 5G، ایران اور دفاعی معاملتوں پر بھی بات ہوئی۔ امریکہ نے ایران پر پابندی عائد کررکھی ہے، جس کے سبب ہندوستان وہاں سے خام تیل کی درآمد نہیں کرسکتا ۔ کچھ مدت کیلئے رعایت دی گئی لیکن 2 مئی کے بعد امریکہ نے اس استثنا سے دستبرداری اختیار کرلی۔ دونوں قائدین نے ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے اظہار یگانگت کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ اچھے دوست بن چکے ہیں۔ دونوں کبھی اتنے قریب نہیں تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مل کر کئی بڑی چیزیں کرنے والے ہیں، جن کا عنقریب اعلان کیا جائے گا۔
اوسا کی G20 میٹنگ کے موقع بریکس (BRICS) قائدین نے علحدہ اجلاس منعقد کیا۔ برازیل، روس، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریکا اس گروپ کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم مودی نے تین چیلنجوں کا ذکر کیا۔ وہ پہلے بھی دہشت گردی کے تعلق سے بات کرچکے ہیں۔ ہر موقع پر دہشت گردی کے بارے میں نیا آئیڈیا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بریکس ممالک یکطرفہ فیصلے کرتے ہیں، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ تمام تر قواعد مقرر کئے جائیں اور ان کی تعمیل کی جائے۔
اس کے علاوہ روس، چین اور ہندوستان کے سربراہوں کے درمیان علحدہ میٹنگ بھی ہوئی۔ تینوں کی تقاریر میں امریکہ کا ذکر نہیں ہوا۔ تینوں ملکوں نے باہمی رشتوں پر زور دیا۔ ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تیل کے تعلق سے بات ہوئی۔ سعودی عرب نے یقین دلایا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں استحکام برقرار رکھنے کی کوشش جاری رہے گی۔
خصوصیت سے دہشت گردی کا معاملہ دیکھیں تو آیا ہندوستان کی اپیل پر G20 نے کوئی عہد کیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے عالمی کانفرنس برائے دہشت گردی طلب کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ کیا G20 ایسی کانفرنس کے معاملے میں اتفاق کرے گا؟ سوال یہ ہے کہ جب G20 میٹنگ ارجنٹینا کے بیونس آئرس میں نومبر 2018ء میں منعقدکی گئی تھی، وہاں جاری کردہ اعلامیہ پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ دنیا کے ممالک کے مابین باہمی تعاون میں اضافہ کرنے کے وعدے کے باوجود آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے وہی ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس تناظر میں G20 کا تجزیہ کیا جانا چاہئے، نہ کہ وہاں کی تصویرکشی سے متاثر ہونا چاہئے۔ بیس اعلیٰ قائدین ہمیشہ ہی تصویر میں اچھے معلوم ہوں گے۔
امریکہ اور چین ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں، امریکہ کی ایران سے بھی لڑائی ہورہی ہے جس سے ہندوستان کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ G20 میٹنگ میں ہانگ کانگ میں جاری احتجاجوں کے ذکر کی اجازت نہیں دے گا۔ دنیا کے کئی ممالک ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کے تعلق سے فکرمند ہیں۔

موسمی تبدیلی بھی G20 ممالک کیلئے اہم موضوع ہے۔ ہندوستان میں گرمی کی حدت بڑھ رہی ہے۔ پانی کا بحران تشویشناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جب G20 میٹنگ ایسے موضوعات پر کوئی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تو پھر اس کا مصرف کیا ہے؟
ravish@ndtv.com